کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 79
’’حجاز،بخارا،مصر اور مغرب میں حدیث کا دور دورہ تھا۔لوگ حدیث پڑھتے تھے اور پڑھاتے تھے۔حفظ و ضبط کی مجلسیں گرم تھیں۔مدارس میں ’’حدثنا‘‘ اور ’’اخبرنا‘‘ کے غلغلے بلند تھے کہ یکایک حجاز اور مصر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے حفظ و ذکا کا اثر بڑھا۔سوڈان سے اندلس تک امام مالک کے مسلکِ فقہ کا اقتدار قائم ہوا۔کوفہ سے ایران اور پھر اقصائے ہند میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی ضیاباریوں نے اپنا اثر ظاہر کیا۔نجد اور اس کے حوالی کے عالم میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی قربانیاں اپنا رنگ لائیں۔اس کے علاوہ بھی بعض ائمہ اجتہاد نے کئی علاقوں پر اپنا اثر ڈالا،جیسے امام اوزاعی،ابن جریر طبری،حافظ ابن خزیمہ،داود ظاہری رحمہم اللہ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بزرگوں کے فہم اور طریقِ فکر کو بھی حدیث فہمی میں ضروری قرار دیا گیا۔ابتدا میں یہ خیال تھا کہ ان حضرات کے افکار کا تتبع ذہن کو لغزش سے بچا سکے گا،لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فکر مندی خود ایک لغزش بن گئی اور سنگِ میل،سنگِ راہ ہو گیا۔ ’’ائمہ حدیث اور فقہا کے مباحث،احناف اور شوافع کے مناقشات اسلام کی خدمت کے بجائے بعض مقامات پر اسلام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔قرآن و سنت کے نصوص باہم تقسیم ہو گئے۔بقول شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ (حجۃ اﷲ البالغہ) ابتدائی چار سو سال تک تقلیدِ شخصی اور جمود کم تھا،بلکہ پہلی صدی میں آج کی مروجہ تقلید کا رواج ہی نہیں تھا۔اواخر صدی میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ پیدا ہوئے،پھر بتدریج ائمہ کے مسالک کا رواج ہوتا گیا۔‘‘