کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 78
شرکت فرمائی۔مجموعی طور پر ان 33 علما نے 22 نکات متفقہ طور پر مرتب کیے اور حکومت کے سامنے ان کو پیش کر کے حجت قائم کی کہ ہم سب مکاتبِ فکر بشمول اہلِ حدیث،دیوبندی،حنبلی،بریلوی اور شیعہ متفق و متحد ہیں۔ان نکات کی اساس و بنیاد پر ملکی آئین کو ڈھالا جائے۔ لیکن افسوس کہ یہ اہم کام ٹال مٹول کی نظر ہوتا رہا۔بالآخر صدر جنرل ضیاء الحق کو یہ کریڈت جاتا ہے کہ انھوں نے ان نکات کو آئین کا حصہ بنایا اور علما کی مشاورت سے بعض اسلامائزیشن کے اقدامات بروئے کار لائے گئے،جن میں زکات و عشر،بیت المال اور وفاق المدارس کا نظام قائم کیا گیا،اس سلسلے میں امیرِ جمعیت مولانا معین الدین لکھوی،مولانا عبدالرحیم اشرف اور میاں فضل حق ۔رحمھم اﷲ أجمعین۔کی صدر جنرل ضیاء الحق سے بار بار ملاقاتیں ہوئیں،جن کے نتیجے میں مندرجہ بالا اقدامات عمل میں لائے گئے۔انہی ایام میں جنرل صاحب نے مولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں انصاری کمیشن بنایا،جس کے رکن مولانا معین الدین بھی تھے،اس کمیشن نے اپنی سفارشات چند ہفتوں بعد پیش کر دیں،لیکن بصد افسوس کہ ان کے نفاذ کا موقع نہ آنے دیا گیا اور جنرل ضیاء الحق کو ایک طیارے کے سانحے میں رفقا سمیت ہلاک کر دیا گیا،اس طرح اسلامائزیشن کا بہت سارا کیا گیا کام اور تفصیلات ضائع کر دی گئیں ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی علیہ الرحمہ بحر العلوم تھے۔مختلف فقہی مذاہب کا تو انھیں گہرا مطالعہ تھا،چنانچہ اپنے ایک مقالے ’’تحریکِ اہلِ حدیث کا مدوجزر‘‘ میں رقم طراز ہیں: