کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 77
رہے۔یہ وہ کشیدہ حالات تھے،جب کہ تقسیمِ ملک کے سبب مہاجرین اور تارکِ وطن لوگ رہنے سہنے کے لیے مکانات کی تلاش اور کاروبار کے لیے وسائل ڈھونڈنے میں مصروف تھے،لیکن ہمارے ان اسلاف نے مسلکِ اہلِ حدیث کی اشاعت و تبلیغ اور درس و تدریس کا بیڑا اٹھایا اور ملک میں دورے کر کے کونوں کناروں سے نکال کر افرادِ جماعت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا،ان کی ضلعی و شہری تنظیمیں قائم کیں اور مساجد و مدارس کا ایک قسم کا جال بچھا دیا۔
ان جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ملکی سیاسیات میں قومی اسمبلی میں قراردارِ مقاصد کے پاس کروانے اور قیامِ پاکستان کے مقصدِ وحید نظامِ اسلام کے نفاذ کے سلسلے کی تمام تر کاوشوں میں دینی جماعتوں کے ساتھ روابط و مشاورت میں بھی پیش پیش رہے۔نفاذِ اسلام کا تقاضا جب دینی حلقوں سے بڑھتا چلا گیا تو مسلم لیگ کے صدر چوہدری خلیق الزماں نے یہ بڑھ ہانکی کہ ہم کس فرقے کا اسلام نافذ کریں،جب کہ ان فرقوں کے درمیان کئی قسم کے اختلافات اور باہم تفریق و انتشار کی فضا کا زور ہے،ایسے میں امیر مرکزی جمعیت اور مجلسِ احرار پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمد داود غزنوی نے پیش رفت فرمائی اور مجلسِ احرار کے ناظم دفتر مولانا مجاہد الحسینی کے ذریعے تمام مکاتبِ فکر کے جلیل القدر علما کے نام پیغام بھیجا کہ ہم متحد ہو کر چوہدری خلیق الزماں کے چیلنج کا جواب دیں۔
چنانچہ مولانا غزنوی کی اس تحریک و ترغیب پر کراچی میں مولانا سید محمد سلیمان ندوی کی صدارت میں علما کا اجلاس منعقد ہوا۔تمام مکاتبِ فکر کے ممتاز علما کے ساتھ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے زعما میں سے مولانا غزنوی،مولانا محمد اسماعیل سلفی،مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی،مولانا محمد عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی اور مولانا محمد حنیف ندوی نے