کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 42
گرفتار کیوں کیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ انھوں نے دلآزار تقریر کی تھی۔حافظ صاحب نے کہا کہ آپ کا رپورٹر کہاں ہے؟ کون سے الفاظ دلآزار تھے؟ انسپکٹر کہنے لگا کہ فلاں مولوی صاحب نے آ کر بتایا تھا کہ ان کی تقریر سے فرقہ واریت اور انتشار کے خدشات ہیں۔ حافظ صاحب جوش میں آ گئے اور فرمایا کہ میں ابھی ایس پی سے لائل پور رابطہ کرتا ہوں کہ آپ نے ایسے غیر ذمے دار لوگ تھانوں میں بٹھا رکھے ہیں جو اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے لوگوں کے کہنے پر علما کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔انسپکٹر اس قدر مرعوب ہوا کہ اس نے فی الفور مولانا کو حوالات سے نکالا اور معذرت کی۔رات کو حافظ صاحب نے جلسے میں پہلے مولانا صمصام کی تقریر کرائی،مولانا نے اپنے خاص اندازِ بیان سے سرورِ کائنات کی سنتِ مطہرہ کی اہمیت اور شانِ رسالت پر کھل کر ڈیڑھ گھنٹے تک محظوظ کیا،جس کے بعد حضرت حافظ صاحب نے دو گھنٹے تک مسلسل اہلِ حدیث کی حقانیت پر خطاب فرمایا اور پولیس کی غلط کارروائی کی مذمت بھی کی،جس سے مقامی جماعت کی کمزوری کو تقویت ملی اور مستقبل میں افرادی قوت میں اضافہ ہوا۔ اسی دور کی بات ہے کہ حافظ صاحب بلاک 191 سرگودھا کی مرکزی جامع اہلِ حدیث میں خطبہ جمعہ کے لیے جایا کرتے تھے۔1953ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کے دنوں میں سرگودھا کی دیوبندی حضرات کی جامع مسجد میں روزانہ عشا کے بعد جلسہ ہوتا تھا،جس میں دیگر علما کے علاوہ حافظ صاحب بھی خطاب فرماتے تھے۔حافظ صاحب کی مدلل اور موثر تقاریر سے تحریک اور کارکنوں کے جذبات دیدنی ہوتے،جس پر حافظ صاحب کی گرفتاری کے آرڈر ہو گئے،مگر حافظ صاحب کو کارکنان عین تقریر کے موقعے پر اسٹیج پر جلوہ افروز کرتے اور تقریر کے فی الفور بعد ایسے غائب کرتے کہ