کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 385
ایسا جھٹکا لگا جس سے قومی شیرازہ بندی کو سخت نقصان پہنچا۔انہی کشیدہ حالات میں میاں صاحب مرحوم کے شاگردوں: مولانا محمد حسین بٹالوی،مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری آگے آئے اور باطل فتنوں سے نپٹنے اور درس و تدریس کا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مولانا ثناء اﷲ امرتسری سے آپ کے اس خادم نے مشورہ کیا کہ خدا کے فضل سے ابھی بہت سے اکابر موجود ہیں،کیا ہی اچھا ہو کہ ان کی قیادت میں جماعتی نظام قائم کر لیا جائے۔چنانچہ یہ خیال اہلِ حدیث کانفرنس کی شکل میں ظاہر ہوا،جس کے سالانہ جلسے دور دراز صوبوں میں ہوتے رہے،اس کانفرنس کے قیام و طعام کے متعلق جو خدمات تحریری و تقریری مولانا ثناء اﷲ نے انجام دیں،وہ محتاجِ بیان نہیں ہیں۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ بانس نہ بانسری،نہ مولانا ثناء اﷲ رہے نہ کانفرنس،نہ امرتسر نہ دہلی،نہ علما نہ مدارس اور نہ کتب خانے،بلکہ انقلاب نے ہر شے پر ایسی ہوا چلا دی کہ اس ن﴿مَا تَذَرُ مِن شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ﴾ [الذاریات: ۴۲] آیت یاد کرا دی۔خدا جزائے خیر دے مولانا محمد داود غزنوی کو کہ انھوں نے جماعت کی پریشانی اور وقت کی نزاکت بھانپتے ہوئے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کا ڈھانچا کھڑا کر دیا ہے،اب جماعت کا کام ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں بن جائیں۔بگڑے ہوئے کام کو سنوارنا،نیا بنانے سے مشکل ہوتا ہے اور اس میں کسی ماہر کاریگر کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن افسوس ہم پر یہ جماعت ایسی حالت میں وارد ہوئی کہ اکابرِ جماعت سب فوت ہو چکے ہیں۔‘‘