کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 357
کے منصوبے اور سنگِ بنیاد کی تفصیل ذکر فرمائی تو ہزار ہا سامعین کی مسرتوں اور نعرہ ہائے تکبیر کے مناظر بھلائے نہیں جاتے۔اس نشست میں اکابرِ جمعیت کے ساتھ حضرت حافظ محمد عبداﷲ روپڑی،حضرت حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حضرت حافظ مولانا عبدالقادر روپڑی بھی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔حافظ محمد اسماعیل نے شدید علالت کے باوجود شیریں بیانی سے محظوظ کیا۔
حافظ عبدالقادر کی پرجوش تقریر نے تو ایک سماں باندھ دیا تھا،جس میں انھوں نے جامعہ سلفیہ کو بین الاقوامی سطح کا ایک علمی مرکز قائم کرنے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کرنے کی حاضرین سے اپیل کی۔چندے کی ترغیب پر انھوں نے سب سے پہلے اپنی جیب سے یک صد روپے پیش کیے،جو اس زمانے میں بڑی رقم تھی۔سب سے زیادہ پانچ ہزار روپے میاں فضل حق نے عطا کیے۔میاں عبدالمجید ناظمِ مالیات مرکزیہ نے دو ہزار روپے اور حاجی محمد اسحاق حنیف ناظم نشر و اشاعت مرکزیہ نے ایک ہزار روپے ادا کیے۔
ابتدائی طور پر جامعہ کی اپنی بلڈنگ دس بارہ تدریسی اور اقامتی کمروں پر مشتمل تھی،عارضی طور پر ایک ہال اور آگے چار دیواری کی مسجد تعمیر کر دی گئی۔چند برس گزرنے پر اس مسجد کو شہید کر کے جامعہ کے شایانِ شان جامع مسجد کی تعمیر صرف تین ماہ میں مکمل کر لی گئی،جس کا نقشہ مولانا غزنوی کا تخیل تھا اور جس کے کل اخراجات میاں فضل حق اور میاں محمد انور چنیوٹی نے ادا کیے۔مینار کا سارا خرچہ شیخ مختار احمد نے کیا،تعمیری کام کی نگرانی میاں محمد عالم ناظمِ تعمیرات اور مولانا عبیداﷲ احرار کرتے رہے۔
برس ہا برس گزر جانے پر جامعہ کے گرد و نواح میں آبادی کے بڑھ جانے اور طلبا کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اب یہ مسجد تنگ دامانی کا مظاہرہ کر رہی تھی،