کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 326
حافظ صاحب کی میزبانی بھی خوب تھی اور ان کی مجلس بھی شگفتہ اور خوش طبعی لیے ہوئے ہوتی تھی۔ ایک دن اسی مقام پر مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی،مولانا عبدالوکیل ہاشمی،مولانا علی محمد صمصام،مولانا محمد حنیف ملتانی رحمہم اللہ اور ان سطور کا راقم محوِ گفتگو تھے۔یہ وہ زمانہ تھا،جس سے چند سال قبل پاکستان دولخت ہو چکا تھا اور اب تک اس نقصان کے غم ناک تاثرات محبِ وطن حلقوں میں شدت سے محسوس کیے جا رہے تھے۔میں نے مولانا عطاء اﷲ حنیف سے عرض کی کہ حضرت! آدھا ملک جو باقی رہ گیا ہے،اس کی سلامتی و بقا کی دعا کیجیے تو مولانا فرمانے لگے کہ بھئی! نہ یہ ہماری دعاؤں سے بنا تھا اور نہ ہماری دعاؤں سے باقی رہے گا۔ دیر کی بات ہے کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہونے سے پہلے ملکی الیکشن کرائے گئے۔مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی مسٹر نور الامین کی وزارتِ اعلیٰ تھی،جس کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں نے جگنو فرنٹ کے نام سے اتحاد قائم کیا ہوا تھا جو الیکشن میں جیت گیا اور مسلم لیگ ہار گئی۔ادھر مغربی پاکستان میں مسلم لیگ جیت گئی۔انہی دنوں احرار راہنما مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری فالج کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔فیصل آباد سے مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف،مولانا عبیداﷲ اور راقم الحروف شاہ جی کی تیمار داری کے لیے ملتان گئے۔خیریت پوچھنے پر شاہ جی فرمانے لگے کہ جو مسلم لیگ کا حال ہے،وہی میرا حال ہے،آدھا جسم کام کر رہا ہے اور آدھا بے حس و حرکت ہے۔کیسے لوگ تھے جو باتوں باتوں میں اپنا نظریہ بھی سمجھا دیتے اور تفننِ طبعی بھی رہتی۔ تحریکِ پاکستان کے احوال میں جب ہم نوجوان ’’لے کے رہیں گے پاکستان،بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے تو سکھوں سے کسی وقت الجھاؤ