کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 27
شہروں میں بھی تبلیغ کے لیے جلسوں اور کانفرنسوں میں جایا کرتے تھے۔جھنگ بازار میں مولوی سردار احمد،بریلوی مسلک کے مشہور خطیب و مدرس تھے،اُن سے مولانا احمد دین گکھڑوی کی اکثر جلسوں میں نوک جھونک ہوتی رہتی۔ایک دو مرتبہ اُن کے نامی گرامی مناظر مولوی محمد عمر اچھروی سے مناظرے کی بات بھی چلی،لیکن مولانا احمد دین کو وہ بخوبی سمجھتے تھے،اس لیے مدِ مقابل آنے کی نوبت نہ آ سکی،تاہم اس قسم کی سرگرمیوں سے عوام الناس میں مسائل سے دلچسپی بڑھی اور مسلکِ اہلِ حدیث کے قرآن و حدیث پر مبنی اعمال و عقائد پر عمل پیرا ہونے والے افراد کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ مولانا احمد دین جہاں علمی لحاظ سے بلند مقام رکھتے تھے،وہاں ان میں خود داری،قناعت اور طبیعت میں قدرے تیزی بھی تھی۔کسی بات پر صدرِ انجمن حکیم نور دین سے ان کا اختلاف ہو گیا تو میرے والد صاحب اور ان کے عقیدت مندوں نے انھیں مسجد مبارک منٹگمری بازار میں لا بٹھایا،جہاں وہ دو سال تک خطیب رہے۔یہاں سے جانے کے بعد مسجد الفردوس گلبرگ میں کچھ مدت گزاری،پھر اس کے بعد جامع مسجد اہلِ حدیث مومن آباد میں مدت العمر خطابت اور درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔بڑھاپے اور بیماری کے بڑھ جانے پر اپنے وطن گکھڑ تشریف لے گئے اور بالآخر یہیں وقتِ معین پر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے! اپریل 1954ء میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی سالانہ کانفرنس نہایت آب و تاب سے دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں منعقد ہوئی،اس موقع پر جامعہ سلفیہ کی بنیاد رکھی گئی،میں اس ایمان افروز موقع پر اپنے والدِ مرحوم کے ہمراہ موجود تھا۔حضرت مولانا داود غزنوی،حضرت مولانا اسماعیل سلفی،مولانا میاں محمد باقر،حضرت صوفی محمد عبداﷲ اوڈانوالہ،مولانا عبدالواحد،مولانا حکیم نور الدین،مولانا محمد عطاء اﷲ حنیف،