کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 26
تعمیر مکمل ہو چکی تھی،البتہ دونوں مینار کافی عرصہ بعد مکمل ہوئے۔
14 اگست 1947ء کو جب پاکستان بنا تو اس مسجد کے پہلے خطیب حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداﷲ ویرووالوی تھے،جو چنیوٹ میں رہایش رکھتے تھے۔وہ خطبہ جمعہ کے لیے یہاں آتے تھے۔دو اڑھائی سال بعد وہ مستقل طور پر فیصل آباد منتقل ہو گئے۔انھوں نے مسجد کے نیچے دکان بنائی،جو ممتاز شربت ہاؤس کے نام سے موسوم تھی اور اب تک قائم ہے۔اب ان کے صاحب زادے حافظ عبدالرحمان اور پوتے اس دکان پر کام کرتے ہیں۔
تقسیمِ ملک کے نتیجے میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے جو مہاجرین فیصل آباد میں مقیم ہوئے،ان میں اہلِ حدیث مسلک کے حاملین کی بھی خاصی تعداد شامل تھی،جن سے مسجد کی رونق دوبالا ہوئی۔ان موحدین کی خواہش پر مختلف ادوار میں جماعت کے معروف علمائے کرام اور مقررینِ عظام؛ حافظ محمد اسماعیل روپڑی،حافظ عبدالقادر روپڑی،مولانا علی محمد صمصام اور مولانا عبداﷲ ثانی امرتسری خطابت کی ذمے داریاں ادا کرتے رہے،لیکن ان حضرات علمائے کرام کی مصروفیات اور ملک بھر میں تبلیغی پروگراموں میں آنے جانے سے بعض دفعہ خطبہ جمعہ میں تعطل پیدا ہو جاتا،بایں وجوہ میرے والد صاحب،مولانا احمد دین گکھڑوی کو وزیر آباد سے لائے،جو خطابت کے فریضے کے علاوہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد درسِ قرآن مجید بھی ارشاد فرماتے تھے،ان کا زیادہ وقت مسجد ہی میں گزرتا،جہاں ان کے ارد گرد ارادت مندوں اور مسائل دریافت کرنے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔
یہ دور امن و امان کا دور تھا۔مسلکی تعصبات تو تھے،مگر لڑائی جھگڑے اور فرقہ وارانہ فسادات ہر گز نہ تھے۔مولانا احمد دین شہر کے محلوں میں بھی اور دوسرے