کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 25
میر عبدالقیوم صاحب ایم۔پی۔اے رہے اور ایک دوسرے صاحب زادے جسٹس ایس اے رحمان ہائی کورٹ کے جج تھے۔انجمن کے نائب صدر شیخ عنایت اﷲ چمڑہ والے اور دوسرے نائب صدر مستری فتح محمد تھے۔سیکرٹری جنرل چوہدری محمد حسن اور پھر صوفی احسان الحق رہے۔ یہ سب احباب شہر کے نامی گرامی تاجر تھے،لیکن اتنے زیادہ ثروت مند نہیں کہ جامع اہلِ حدیث کے تمام تعمیراتی اخراجات برداشت کر سکیں،چنانچہ حکیم نور الدین صاحب کے دستِ راست مولانا عبدالواحد،جو امام و خطیب بھی تھے،ہندوستان کے بیشتر شہروں کا وقت نکال کر دورہ کرتے اور ہفتہ عشرہ بعد سفر میں جاتے رہتے۔مولانا محمد اسحاق چیمہ جو شہر کے قریبی گاؤں ملکھاں والا میں رہایش پذیر تھے اور دار العلوم اوڈانوالہ میں مدرس تھے،گاہے بہ گاہے اس چندہ مہم میں بعض مقامات پر ان کے ہمراہ جاتے۔ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر میں قریباً ہر شمارے میں چندے کی فراہمی اور اخراجات وغیرہ کا گوشوارہ شائع ہوتا تھا۔ مولانا عبدالواحد جہاں علم و عمل میں بلند مرتبت انسان تھے،امانت و دیانت اور تقوی و زہد میں بھی مثالی مقام کے حامل تھے،مسجد کے اخراجات کے سلسلے میں تادمِ آخر وہ بڑے حساس رہے۔اِسراف و تبذیر سے کوسوں دور اور حساب فہمی میں انتہائی محتاط تھے۔مولانا موصوف بلند قد و قامت،مضبوط جسم و جان اور خوب صورت خد و خال والی شخصیت تھے،وہ اپنے ساتھیوں محمد حسین (امام مسجد منشی محلہ)،حافظ عبدالخالق (امام مسجد جامع کچہری بازار) اور بابو احمد خان (ٹیچر ماڈل ہائی سکول) کے ہمراہ روزانہ دھوبی گھاٹ کے میدان میں نمازِ عصر کے بعد والی بال کھیلتے۔کرکٹ کے بھی وہ مشہور کھلاڑیوں میں سے تھے۔تقسیمِ ملک سے پہلے جامع مسجد اہلِ حدیث کی