کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 22
ملکی تاریخ کا ایک شرمناک حادثہ بن گیا۔پوری اسلامی دنیا زوال پذیر تو تھی ہی،مگر پاکستان کے اس سانحے کے بعد اس کی کمر ٹوٹ گئی اور یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ پاکستان کا مطلب کیا: ’’لا إلہ إلا اللّٰه ‘‘۔پھر بھی ہم اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اتنا حسین اور خوب صورت ملک عطا کیا،لیکن آہ! ہم نے اسے خاک و خون میں نہلا دیا۔
تذکرہ کیا جا رہا تھا ہمارے شہر پٹی کا،جہاں 1939ء میں ایک نیک طینت اور مومنانہ کردار کی حامل شخصیت حاجی عبدالرحمان کے گھر میری پیدایش ہوئی۔1944ء میں شہر اور اس کے مضافات میں چیچک جیسی مہلک مرض پھیلی،جس کی زد میں قدرت نے مجھے بھی مبتلا کر دیا۔بیماری کی شدت سے بہت سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی تھیں۔
انہی دنوں حضرت مولانا سید محمد شریف صاحب گھڑیالوی،امیر انجمن اہلِ حدیث پنجاب،پٹی تشریف لائے،انھوں نے ہمارے محلہ مومن آباد کی مسجد میں فجر کی نماز کے بعد درسِ قرآن مجید ارشاد فرمایا۔دینی علوم کی اہمیت و برکات بیان کرتے ہوئے انھوں نے ترغیب دلائی کہ اپنے بچوں کو دینی تعلیمات کے زیور سے آراستہ کریں اور انھیں اس اہم مقصد کے لیے وقف کر دیں۔میرے والد صاحب نے درس کے بعد شاہ صاحب سے عرض کی کہ حضرت! میرا بیٹا شدید بیمار ہے،آپ اس کی صحت کے لیے دعا کریں،میں اسے دین کے لیے وقف کر دوں گا۔
شاہ صاحب مستجاب الدعوات تھے،انھوں نے نہایت سوز و گداز سے دعا کی اور اﷲ تعالیٰ نے مجھے صحتِ کاملہ عطا فرمائی،بلکہ اس قدر توانائی ہو گئی کہ میں تحریکِ پاکستان کے دوران میں 1946,1945ء میں بچوں کے گروہ کی قیادت