کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 13
ہے کہ جو کسی مومن کا ترجمہ لکھتا ہے اور اس کے واقعات و احوال کو محفوظ کرتا ہے،وہ اسے زندگیِ دوام بخشتا ہے اور جو ان واقعات کو پڑھتا اور ان سے مستفید ہوتا ہے،وہ گویا ان کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے۔
محترم مولانا صاحب کو ماضی قریب میں بہت سے اکابر علما کی مصاحبت حاصل رہی ہے۔مختلف مجلسوں میں وہ ان بزرگوں کی حکایات بیان کرتے ہیں تو ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ان سے کئی بار عرض کی گئی کہ ان واقعات کو سفینوں میں محفوظ کر دیں۔بلکہ اس ناکارہ نے تو انھیں یہ بھی متعدد بار عرض کیا ہے کہ’’لائل پور‘‘ جو اب فیصل آباد ہے،اس کی تعمیر و ترقی میں اہلِ حدیث اکابر کی خدمات اور یہاں کتاب و سنت کی آواز کو پاپولر بنانے میں ان کے عمل و کردار کو بھی مرتب فرما دیں،یہ کام آپ تو کر سکتے ہیں،بعد میں شاید کسی سے نہ ہو پائے۔
کسے معلوم ہے کہ 1904ء میں لائل پور کی میونسپل کمیٹی بنی تو اس کے ایک اہم رکن جناب حکیم نور دین مرحوم اہلِ حدیث تھے۔ان کی خدمات کے صلے میں سرکار نے انھیں دو مربعے زمین دی،مگر تحریکِ خلافت میں نمایاں حصہ لینے کی پاداش میں انگریز گورنمنٹ نے زمین ضبط کر لی اور ڈیڑھ سال قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔یوں سیاسی قیدی کے طور پر لائل پور جیل میں قید ہونے والا یہ اہلِ حدیث حکیم پہلا شخص اور پہلا مسلمان تھا،جس کی تفصیل مرحوم مولانا محمد اسحاق بھٹی نے ’’کاروانِ سلف‘‘ میں بیان فرمائی ہے۔
ناسپاسی ہو گی اگر میں یہاں محترم مولانا محمد عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کا شکریہ ادا نہ کروں،جن کے مسلسل اصرار پر محترم مولانا نے اسلاف کے یہ واقعات مرتب فرمائے اور ہمارے لیے ان سے شناسائی کی تقریب پیدا کر دی۔جزاہ اللّٰه أحسن الجزاء