کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 125
افتتاحی تقریب کے لیے کسی نامی گرامی شخصیت کے متعلق بتائیے۔میں نے علامہ صاحب کے بارے میں بتایا،کیوں کہ اُن ایام میں علامہ صاحب کی خطابت اور علمی فضیلت کا شہرہ ملک اور بیرونِ ملک عروج پر تھا۔ڈاکٹر صاحب نے جواب میں کہا: علامہ سیاسی لیڈر بھی ہیں،اگر وہ تقریر میں سیاسیات میں چلے گئے تو میری شامت آ جائے گی۔میں نے ذمہ لیا کہ علامہ صاحب کو عرض کر دیں گے،وہ موقع شناس ہیں،ان شاء اﷲ موضوع پر رہیں گے۔چنانچہ علامہ صاحب بخوشی تشریف لائے اور خطاب کیا۔ یونیور سٹی کے لان میں بڑا شاندار اہتمام کیا گیا تھا۔ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شہر کے علما و زعما اور معروف سکالرز و دانشور مدعووین میں شامل تھے۔علامہ صاحب نے اردو میں عربی زبان کی افادیت اور اہمیت پر ڈیرھ گھنٹا پرمغز خطاب کیا۔اس کے بعد عرب ممالک کے طلبہ کی خواہش پر علاحدہ سے اقبال ہال میں عربی زبان میں فصیح و بلیغ خطاب فرمایا۔ صورتِ حال یہ تھی کہ اساتذہ و طلبا بے حد محظوظ ہوئے اور جھوم جھوم گئے۔علامہ صاحب نے پروگرام کی کامیابی اور شان و شوکت سے متاثر ہو کر مجھے کہا: ’’پنجاب یونیورسٹی میں بہت دفعہ طلبا نے میری تقریر کے لیے کوششیں کی ہیں،لیکن ہر بار حکمرانوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں۔دنیا کی سب سے بڑی اس زرعی یونیورسٹی میں آ کر مجھے دلی مسرت ہوئی ہے۔‘‘ علامہ صاحب کے ساتھ عملاً ان گہرے مراسم سے ہمارے بہت سے نادان دوست سیخ پا ہوتے رہتے،لیکن اﷲ تعالیٰ کا یہ مجھ پر فضل و کرم رہا کہ میں نے آج تک کسی سے ذاتی مراعات یا مفادات حاصل نہیں کیے۔اس لیے کبھی ایسی باتوں کو وقعت نہیں دی۔میرے والد علیہ الرحمہ مجھے ہمیشہ فرماتے کہ تمام اہلِ علم کی تکریم و احترام