کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 12
کو محفوظ کیا گیا۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
’’اَلْحِکَایَاتُ عَنِ الْعُلَمَائِ وَمَحَاسِنُھُمْ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کَثِیْرِ مِّنَ الْفِقْہِ،لِأَنَّھَا آدابُ الْقَوْم‘‘
’’علما کی حکایات اور ان کے محاسن کا تذکرہ میرے نزدیک بہت سی فقہ سے زیادہ محبوب ہے،کیوں کہ وہ قوم کے آداب ہیں۔‘‘
امام سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
’’عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ‘‘
’’صالحین کے ذکر پر اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔‘‘
بلکہ بعض حضرات نے فرمایا ہے:
’’اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے اﷲ کی رضا نازل ہوتی ہے،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے محبت نازل ہوتی ہے اور صالحین کے ذکر سے اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔‘‘[1]
اور یہ بات تو حقیقت پر مبنی ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے،وہ اسے اکثر یاد کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کا نام لیتا اور اس کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ))
’’آدمی اسی کا ساتھی ہے،جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف کا تذکرہ،ان سے محبت و الفت اور تعلقِ خاطر کا آئینہ دار ہے۔حضرت مولانا محمد یوسف انور ۔مَتَّعَنَا اللّٰہُ بِطُوْلِ حَیَاتِہِ۔نے بھی یہ تذکرۂ اسلاف لکھ کر ان سے اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت دیا ہے۔سچی بات
[1] الإعلان بالتوبیخ