کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 97
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِٓکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَ قَا تَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰه الْحُسْنٰی[1] (حدید:10)
تم مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں مال خرچ کئے اور دشمنوں سے لڑے وہ دوسرے مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے یہ لوگ درجے میں ان مسلمانوں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کئے ہیں اور حسن سلوک کا وعدہ تو اللہ نے سب ہی سے کر رکھا ہے ۔
[1] فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور جہاد کرنے کا اجروثواب اس لیے بہت بڑا تھا کہ اسلام صرف مدینہ طیبہ ہی میں محدود تھا ۔ اور مدینہ طیبہ بھی منافقوں اور اسلام کے دشمنوں سے بھرا ہوا تھا پس اللہ تعالیٰ نے اعظم ترین درجہ کو انفاق وسخاوت ،قتال وجنگ ،شجاعت و بہادری کے ساتھ معین کردیا ۔ مدینہ کی ہجرت سے پیشتر کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جیسی جیسی سازشیں کرتے تھے وہ ظاہر ہے ۔مجبورًا طائف کا ارادہ کرتے ہیں کہ وہاں کچھ کا میابی نصیب ہو ،لیکن وہاں کے لوگوں کی سرکشی سے مایوس ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کا بائیکاٹ کیا گیا شعب ابی طالب(یعنی غار) میں تین سا ل نظر بند رکھا گیا ۔چند صحابہ کو مجبورًا ہجرت حبشہ کی اجازت دی ،تو کفّار مکہ کا وفد ان کے خلاف بھیجا گیا ۔کفار مکہ دارلندوہ میں جمع ہو کر آپ کے خلاف تدبیریں سوچا کرتے ہیں اور بالآخر سرداران مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو(نعوذبا للہ ) قتل کر نے کا ارادہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے مجبور ہوتے ہیں ہجرت کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گر فتاری کے لیے بڑے بڑے انعامات کے وعدے ہوتے ہیں ۔مکہ میں آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء اللہ کی عبادت بھی کھلی طور پر نہیں کر سکتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے کفار=(بقیہ صفحہ آئندہ) =کے نمائندے چلے جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آوازیں کستے ہیں ،جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے جاتے ہیں تو یہودونصاریٰ اور منافقوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا پڑ تا ہے ۔یہ لوگ شب وروز مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں،کفار مکہ کو روزانہ یہاں کی خبریں بھیجتے ہیں،کفار مکہ دارلندوہ میں جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں سوچا کرتے ہیں ۔غزوہ بدر ،غزوہ احد ان کی سازشوں کا ادنیٰ سا شاخسانہ تھا۔
غرض ! اسلام محدود تھا۔اور مسلمان ہر طرح بے بس تھے،مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ کھانے پینے کے سامان سے بھی قاصر تھے ۔اور سا را ملک یہ سوچ رہا ہے کہ اسلام کو کس طرح مٹا دیا جائے ،فتح مکہ سے پہلے اسلام کا خاتمہ صرف