کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 9
مقدم جاننا۔ کیونکہ جب تک محبت کا یہ معیار قائم نہیں ہو گا اُس وقت تک کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ قائد کے ایک ایک اشارے پر جان نچھاور کرنے سے ہی اندرونی اور بیرونی سازشوں، بغاوتوں اور یلغاروں کو کامیابی سے ختم کیا جا سکتا ہے اور حملہ آوروں کو واقعی داندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے۔
لیکن
اگر قائداللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے خلاف کسی بات کا حکم کرے تو اُس سے انکار کرنا اور اس بات پر عمل نہ کرنا بھی فرضِ عین ہے۔ مثلاً امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو حاکم(امیر) بنایا۔ اُس نے آگ جلائی اور لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اس میں داخل ہو جائیں اور بعض نے کہا کہ ہم آگ سے بھاگ کر تو مسلمان ہوئے(اور جہنم سے ڈر کر کفر چھوڑا تو اب پھر آگ ہی میں گھسیں تو یہ ہم سے نہ ہو گا)۔ پھر اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ ا نے ان لوگوں سے جنہوں نے داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا یہ فرمایا کہ اگر تم داخل ہو جاتے تو قیامت تک ہمیشہ اسی میں رہتے(کیونکہ یہ خودکشی ہے جو شریعت میں حرام ہے) اور جو لوگ داخل ہونے پر راضی نہ ہوئے، ا ن کی تعریف کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو جائز بات ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ا نے فرمایا: تمہارے بہتر حاکم وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور وہ تمہیں چاہتے ہیں اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تم اُن کے لیے دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے بُرے حاکم وہ ہیں جن کے تم دشمن ہو اور وہ تمہارے دشمن ہیں، تم اُن پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔
قائد کی وہ خوبیاں جن کی وجہ سے عوام اس سے محبت کریں
اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسے عوامل ہیں کہ لوگ اپنے قائد سے محبت کریں؟ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ’’قائد‘‘ اپنے لوگوں کے مال و دولت پر ’’نگاہ‘‘ نہ رکھے بلکہ اپنی ملکیت میں آنے والا