کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 88
جب مصالح اور مفاسد میں باہم ٹکر ہو تو دو مصلحتوں میں سے جو بڑی ہو اختیار کی جائے۔ اور ادنیٰ کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جو بڑا مفسد﴿فسادِ اکبر﴾ ہو اسے دُور کیا جائے، ادنیٰ مفسد﴿چھوٹا فساد﴾ کے احتمال کے مقابلہ میں، یہی مشروع﴿عمل﴾ ہے ۱۔[1]
اور اثم عدوان کی اعانت کرنے والا وہ ہے جو ظالم کی اعانت کرے، لیکن وہ شخص جو مظلوم کی اعانت﴿و مدد﴾ کرتا ہے یا جو ظلم ہورہا ہے اس میں کمی ہو اس کی اعانت کررہا ہے، یا جو ظلم ہوا ہے اس کا بدلہ دلوانے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ مظلوم کا وکیل ہو گا نہ کہ ظالم کا۔ اور یہ بمنزلہ اس شخص کے ہو گا جس نے قرض دیا۔ یا ظالم کے ظلم سے بچانے کے لیے کسی کے مال کا وکیل ہوا۔ مثلاً یتیم کا مال، یا وقف کا مال ہے، اور یتیم اور وقف کے مال میں سے کسی ظالم نے خواہ مخواہ طلب کیا، اور اس کے ولی نے بوجہء مجبوری کم سے کم دینے کی کوشش کی، ظالم کو دیا، یا ظالم نے دلوایا، اور ولی نے پور ی پوری کوشش کر کے کم سے کم
[1] اصلاح کے لیے پہلے اصول اصلاح کی اعانت فرض ہے،جب کوئی شخص کسی غیر مشروع منکر کی اصلاح کا قصد کرے تو پہلے اسے سوچ لینا چاہئے کہ غیر مشروع منکر کس درجہ کا ہے ،اگر اس کی اصلاح کی گئی تو کیا اس کی بجائے کوئی دوسرا غیر مشروع منکر تو نہیں پیدا ہوتا ، جو اس سے بڑھ کر ہو ۔ اگر اس سے بڑھ کر نہیں تو پھر اس کے مساوی اور با عتبار ثمرات و مفاسد اس سے بڑھ کر تو نہیں ہے ،ان ہر دو صورتوں میں اصلاح کا قصدکرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایک فساد کی جگہ اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہو رہا ہے ،جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کی اصلاح کا ارادہ رکھتے تھے ، حطیم کے حصہ کو کعبۃ اللہ میں داخل کر کے پورا کر لینا چاہتے تھے ،اور دو دروازے بنانا چا ہتے تھے ایک سے کعبتہ اللہ میں داخل ہوں دوسرے نکل جائیں لیکن اس اصلاح سے مفاسد پیدا ہونیکا اندیشہ تھا ۔تو مسلم لوگ طرح طرح کے خیا لا ت دوڑانے لگتے اور بری طرح کی خرابیاں پیداہونیکا اندیشہ تھا ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا خیال ترک فرمادیا ۔
اگر اصلاح کی یہ صورت ہے کہ اس کی اصلاح سے دوسرا منکر اس کے مساوی پیدا ہوتا ہے ،لیکن باعتبار مفاسد اس سے کم درجہ رکھتا ہے ،یا اس کی جگہ کم درجہ کا فساد پیدا ہوتا ہے یا جو مفاسد پیدا ہوئے ہیں کم درجہ کے ہوتے ہیں یا امر مستحسن پیدا ہوتا ہے،ان تین صورتوں میں اسلاح کے لیے اقدام فرض ہے اور اقدام میں کوتاہی کرنا گناہ ہے۔( ابو العلاء محمد اسمٰعیل کان اللہ لہٗ)