کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 80
اور اگر کوئی فوت ہو جائے اور کوئی بھی وارث نہ ہو تو اُس کا ترکہ اُس آبادی میں رہنے والوں کو دے دیا جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی طریقہ تھا کہ میراث و ترکہ کے لیے ادنیٰ سے ادنیٰ سبب کافی تھا جو میت میں اور اس میں پایا جائے۔
اور مسلمانوں سے باقاعدہ جو مال لیا جاتا تھا وہ﴿صرف﴾ صدقہ و زکوٰۃ تھا۔ صدقہ و زکوٰۃ کے سوا ان سے کچھ﴿بھی ٹیکس وغیرہ﴾ نہیں لیا جاتا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو یہ فرماتے: مسلمان فی سبیل اللہ مال و جان سے غزوہ و جہاد میں شرکت کریں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لائیں۔
عہد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد ِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں مال مقبوضہ جو تقسیم کیا جاتا تھا اس کا کوئی جامع دیوان و دفتر نہیں تھا بلکہ مناسب طریقہ سے مسلمانوں کو بانٹ دیا جاتا۔ عہد ِ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ میں مال اور ملک کی وسعت بہت زیادہ ہو گئی تو مقاتلین، مجاہدین اور اہل بخشش کے لیے دیوان و دفتر بنائے گئے، اور خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیوان و دفتر بنوائے، جن میں اکثر مجاہدین اور فوج کے نام درج تھے، یہ دیوان اور دفتر آج مسلمانوں کے لیے نہایت اہم اور شاندار ہیں۔
شہروں اور آبادیوں سے جو خراج اور فئے وغیرہ کا مال لیا جاتا تھا اس کے دیوان و دفتر علیحدہ تھے۔ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں اور اس سے پہلے جو مال آتا تھا، تین قسم کا تھا، جن میں ایک قسم کے مال پر امام و امیر﴿یعنی حاکمِ وقت﴾ کا قبضہ ہو تا تھا، اور امام و امیر کو ہی اس کا حقدار سمجھا جاتا تھا۔ کتا ب اللہ اور سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ﴿اُمت﴾ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اور ایک قسم کا مال وہ ہے جس کا لینا امام و امیر﴿حاکمِ وقت﴾ کے لیے حرام تھا، جیسے جنایات اور گناہ کی وجہ سے کوئی آدمی قتل کر دیا گیا، اس کا مال کسی اور آبادی سے بیت المال کے لیے مال وصول کیا جائے گو اس کے وارث موجود ہوں یا کو ئی حد کا مستحق ہے۔ اور کسی وجہ سے مال لے کر حد ساقط کر دی گئی۔
اور ایک تیسری قسم وہ ہے جس کے متعلق اجتہاد کو دخل ہے، اور علماء کرام نے اس میں اختلاف کیا ہے، مثلاً کوئی آدمی مر گیا اُس کا مال ہے، اس کے ذی رحم﴿جیسے والدین، اولاد وغیرہ﴾ موجود ہیں لیکن ذوی الفروض﴿جن کا حصہ قرآن و حدیث میں متعین ہو اِن﴾میں کوئی نہیں ہے، نہ کوئی عصبہ﴿رشتہ دار﴾ موجود ہے، اور اس کے مثال اور واقعات، تو اس میں علماء کی راہ اور مسلک علیحدہ علیحدہ ہیں۔