کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 6
قائد؍لیڈر؍امام؍ حاکم وغیرہ وہ شخصیت ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے اپنی اعلیٰ ترین خوبیوں کو بروئے کار لا تے ہوئے ان کی ہر قسم کی رہنمائی کرے، اور انہیں منزل مقصود تک لے کر چلے۔ اس کی شخصیت میں بہت ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں جن میں دو کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سورۂ بقرہ میں کچھ اس انداز سے کیا ہے: وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ اور اُس(قائد) کو علم و جسم میں زیادتی عطا فرمائی ہے۔(البقرۃ:247) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اگر کسی شخصیت کا بطورِ قائد چناؤ کیا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے، پھر ان علم والے لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور شجاع کون ہے؟ کیونکہ اس آیت کا تقاضہ یہی ہے کہ قائد بنانے سے پہلے، کسی کی بیعت کرنے سے پہلے، اس کے پیچھے چلنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیا جائے کہ کیا یہ شخصیت از رُوئے قرآن مجید قائد بننے کے لائق بھی ہے یا نہیں؟ اسی طرح جسمانی طاقت کے معنی قوتِ دل بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک تو یہ جسم ہی کا حصہ ہے اور دوسرے یہ کہ بعض اوقات کمزور اور بددل بڑے جثے والے لوگ دل ہار جاتے ہیں اور قوی دل والے لوگ ان پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح قوتِ ضبط، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادہ، قوتِ دماغ، ثابت قدمی، پھرتی، صحیح نشانہ بازی، تلوار بازی، رعب و دبدبہ، ظالم و جابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنے کی جرأت وغیرہ بھی جسمانی قوت و طاقت ہی میں شمار کی جا سکتی ہیں جو کہ ایک ’’قائد‘‘ کے اندر لازماً ہونی چاہئیں اور یہ ایسی صفات ہیں کہ ان پر الگ الگ کتاب بھی ترتیب دی جا سکتی ہے لیکن اختصار کی خاطر سب کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح تدبر، غور و فکر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، حکمت و دانائی اور سیاست وغیرہ بھی قائد کی شخصیت کو نمایاں کرتی ہیں کہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا ٓ اُولُوا الْاَلْبَابِ