کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 5
کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام
مصنف: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
پبلیشر: دائرہ نور القرآن ، کراچی
ترجمہ:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
عرض ناشر
لفظ ’’سیاست‘‘ عربی لفظ ہے اور حکومت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ زیر نظر کتاب ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ میں ’’حکمران، بیوروکریسی اور عوام‘‘ کے باہمی ربط اور حقوق و فرائض پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
عملی سیاست کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ ’’ہر وہ عمل، قول، فعل، معاملہ، سوچ و فکر، تدبر، اشارہ اور کام وغیرہ وغیرہ جو باقی سب کی رائے، قول و عمل پر حاوی ہو جائے اور باقی سب اس کے مطیع ہو جائیں‘‘ عملی سیاست کہلاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ’’اپنی بات ، کام اور سوچ دوسروں پر غالب کر دینا‘‘ عملی سیاست کہلاتی ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کے قرآن کی یہ آیت بطورِ دلیل پیش کی جا سکتی ہے:
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
(اللہ تعالیٰ) وہ ذات ہے جس نے رسول بھیجا ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ ’’اس کو غالب کردے‘‘باقی تمام ادیان(زندگی گذارنے کے راستوں اور طریقوں) پر(توبہ:33)
اس آیت کریمہ میں لفظ ’’لِیُظْہِرَہٗ ‘‘عملی سیاست کا مظہر ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں ’’السیاسۃ الشرعیہ‘‘ وہ ہے جس کے تحت دین اسلام باقی تمام ادیان(یعنی زندگی گذارنے کے راستوں اور طریقوں) پر غالب کر دیا جائے۔
دین اسلام ہو یا کوئی بھی نظام، اسے دنیا میں نافذ کرنے کے لیے ایک تو قائد؍ لیڈر؍ امام؍ حاکم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جن پر نظام نافذکیا جائے گا۔ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اب ان کی کیا کیا صفات ہونی چاہئیں کہ وہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہو، وہ مقصد پورا ہو، ذیل میں ہم اسی نقطے پر بحث کریں گے۔