کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 23
موجود ہیں، جہاں کسی غیر قوم و برادری کا شخص گھر نہیں بنا سکتا۔ اگر نہیں تو ’’اہل حق‘‘ کہلانے والوں کی آج کوئی ’’کالونی‘‘ نہیں، کوئی ’’آبادی‘‘ نہیں بلکہ یہ مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں جو اپنی اپنی ’’کالونی‘‘، ’’آبادی‘‘ والوں کو ان کی خبریں دیتے ہیں، ان میں اپنے اپنے ’’رسم و رواج‘‘ کو فروغ دیتے ہیں، اپنی اپنی ’’تعلیم ‘‘ پھیلاتے ہیں، ان میں اپنی خفیہ انٹیلی جنس کے کارندے بھیج کر انہیں ایک جماعت سے دو، دو سے چار اور پھر تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ فاعتبروا یا اُولی الابصار۔ جب تک ’’اہل حق‘‘ ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوں گے اُس وقت تک دُنیا کو ’’نمونہ‘‘ اور ’’آئیڈیل‘‘ کیسے دے سکیں گے کہ حق تعالیٰ نے اسلام پر عمل کرنے کے لیے ’’اہل حق‘‘ کے لیے یہ یہ پیمانے مقرر کیے ہیں اور اس اس طرح سے ان پر عمل کیا جائے گا۔
قانون
ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی آبادی و کالونی میں سب سے پہلا کام جو کرنے کا تھا وہ قانون کا مرحلہ تھا۔ قربان جائیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسلامی قانون مسلمانوں پر نافذ کرنے کی راہ ہموار کی بلکہ یہود و نصاری اور دیگر کافروں سے بھی یہ منوا لیا کہ ’’مسلمانوں کی آبادی‘‘ میں رہنے والے تمام لوگ فیصلہ کروائیں گے تو محمد رسول اللہe سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ جو فیصلہ کریں گے وہ آسمانی ہدایت یعنی اسلام کے مطابق کریں گے۔ ملاحظہ ہو میثاقِ مدینہ کی آخری شق جس میں تمام کافر اور مسلمان اللہ کے قانون کے پابند بنا دیئے گئے۔ کیا آج ’’اہل حق‘‘ نے ایسی کوئی کوشش کی ہے؟ کیا انہوں نے آج اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا اور کروانا دیگر مذاہب کے لوگوں سے منوا لیا ہے؟ یا کم از کم اپنے تنازعات کا فیصلہ اسلامی قانون کے مطابق کروا رہے ہیں؟ جواب نفی میں ہے بلکہ فیصلہ کروانے کے لئے اُن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں طاغوت کہا ہے۔ اس ضمن میں سورۂ نساء کی آیات 58 تا 60کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔