کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 20
مکی زندگی میں ہی تمام عرب تک بلکہ عرب سے باہر بھی توحید کی دعوت پھیلا دی۔ آج بھی ضرورت ہے کہ وہی اسلوب اختیار کیا جائے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے سے الگ نہیں کیا اور اس کی بدولت دنیا میں شمع توحید کی تمام کرنیں منور کر دیں۔ یہ ایک مستقل باب ہے جسے اسوۂ حسنہ سے کھنگالنے کے لیے تحقیق کرنی چاہیے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہیے تاکہ اس دنیا میں توحید کو دوبارہ سے نافذ کیا جا سکے۔ آج کے دور میں دنیا کے پاس ایک ایسی قوت ہے جو لوگوں کے ذہنوںمیں خیالات پیدا کرتی ہے اور انہیں آگے بڑھاتی ہے، یہ ’’میڈیا‘‘ کی قوت ہے۔ میڈیا کا اصل کردار یہ ہے کہ ناگزیر ضروریات کی نشاندہی کرے اور عوام کی شکایات اور تکالیف کو سامنے لائے۔ جبکہ موجودہ میڈیا بے اطمینانی اور بے چینی کی فضاء پیدا کر رہا ہے اور ہر ایک برائی کی تشہیر بھی کئے جا رہا ہے۔ یہ میڈیا ہی تو ہے جس کے ذریعہ آزادئ تقریر کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ ’’مسلمان‘‘ چونکہ اس طاقتور ترین حربے کے استعمال سے ناآشنا اور بے بہرہ ہیں لہٰذا یہ طاقت کلی طور پر یہودیوں کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ میڈیا ہی کی وجہ سے یہود و نصاریٰ، ہندوؤں اور دیگر غیر مسلموں نے خود کو پس پردہ رکھتے ہوئے ’’مسلمانوں‘‘ پر اثر انداز ہوئے ہیں، اسی کے ذریعے انہوں نے سونے جیسی قیمتی دھات اپنے قبضے میں لے لی ہے اور اب ’’تیل‘‘ کی طاقت کو ہتھیانے کے چکروں میں ہیں۔ چنانچہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بہت اچھے ہیں اگر ان کے اثرات معاشرے پر اس انداز میں پڑیں کہ یہ میڈیا لوگوں کو دینی اُمور کی ادائیگی اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ کر دے، ان کے جذبات کو شیطانی راہوں پر نہ چلا دے، ان کی نسل کشی نہ کر دے، ان کے ذہنوں سے اسلامی تشخص کو محو نہ کر دے، لغویات اور فضولیات کے پردے میں اسلامی تعلیمات کو بھلا نہ دے، عریانی و فحاشی کو فروغ نہ دے، لوگوں کی عزت و آبرو کو دنیا میں نہ اچھالے، لوگوں کو بلیک میل نہ کرے۔ اور لوگوں کو ان کے دین سے بیگانہ نہ کرے۔ میڈیا پر دبے یا کھلے الفاظ و اشارات یا وعظ و لیکچرز کے ذریعے اسلام کے خلاف شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلمانوں کے ذہنوں کو پراگندہ نہ کرے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا بااختیار حاکم، افسر، سماجی کارکن، این جی او کا سربراہ یا