کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 16
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بادشادہ کی سوچ ’’قرآن مخلوق ہے‘‘ کی مخالفت کی اور قرآن و حدیث سے ایسے دلائل پیش کئے کہ ’’قائد‘‘ کی تمام دلیلیں ختم ہو گئیں، چنانچہ اسی سچ کی پاداش میں امام صاحب کو کوڑے لگائے جاتے رہے، پوری جوانی اور بڑھاپا جیل کی سلاخوں کی نذر کر دیا گیا لیکن اپنے چار قائدین کی ایک ہی غلط بات کو کبھی مصلحت کے تحت بھی ’’ٹھیک‘‘ نہ کہا جس کا نتیجہ پوری اُمت پر احسان کی صورت میں نکلا کہ قرآن کو مخلوق کہہ کر ختم کرنے کی سازش بھی ختم ہو گئی۔ علیٰ ھٰذا القیاس جب تک مسلمانوں نے اپنے قائد کو سیدھا رکھا، ان کا دین بھی زندہ رہا اور ان کی حکومت و سیادت بھی۔ ان کی سیاست بھی چلتی رہی اور دنیا پر حکمرانی بھی۔ ان کی تہذیب و تمدن بھی زندہ رہا اور معاشرتی اقدار بھی۔ لیکن جب کبھی بھی یہ چیز ختم ہوئی اور ’’یس سر‘‘(Yes Sir) کہنے والے لوگ قائدین کے گرد رہے، مسلمانوں کو ہمیشہ شکست و ریخت کا ہی سامنا رہا۔ جیسا کہ آجکل ہے۔ یہ سب یہودیوں کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ ’’بیچارہ مسلمان‘‘ ان کے چنگل میں پھنس کر ہمیشہ Yes Sir ہی کہتا ہے۔ایک فون کی گھنٹی پر ہی سجدہ میں گر جاتا ہے۔ موازنہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں میں سے چند ایک آدمیوں نے اپنے ’’قائدین‘‘ کو سیدھا رکھنے کے لیے اپنی جانی و مالی قربانیاں پیش کیں لیکن اس وقت بھی بہت سے لوگ اپنے انہیں ’’قائدین‘‘ کے گن گاتے، کوئی خوشی سے اور کوئی ناخوشی سے۔ کوئی جبر و ستم سہنے کے بعد اور کوئی مالی فوائد حاصل کرنے کے بعد۔ علی ھٰذا القیاس ہم اس کی وجہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سطحی نظر سے دیکھنے والوں نے قرآن مجید کی آیت: اطیعوا ااَللّٰه واطیعوا الرسول واولو الامر منکم کے تحت اپنے قائدین کے سیاہ و سفید کو ’’حق‘‘ جانا اور بخوشی قبول کیا لیکن دقیق نظر اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قائد ایسے منصب کے دفاع کے لیے انتھک کوششیں کیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تک حکام دین کو قائم رکھیں ان(حکام) سے عداوت مت رکھو‘‘۔ اسی طرح فرمایا: پسندیدہ اور ناپسند تمام اُمور میں مسلمان امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا ضروری ہے جب تک وہ گناہ کا حکم نہ