کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 15
چنانچہ جب ’’قائد‘‘ اپنی دولت عوام الناس میں تقسیم کر دیتا ہے تو عوام الناس اس سے محبت کرتے ہیں، اس پر جان نچھاور کرتے ہیں، اس کی من و عن اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اور جب اس دولت کے بل بوتے پر ’’قائد‘‘ اپنی ’’اولاد‘‘ کو غیر مسلموں کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے نہیں بھیجتا تو پھر وہ انہی غیر مسلموں کے ہاتھوں ’’بلیک میل‘‘ ہونے سے بچ جاتا ہے اور اپنی پوری قوم کی خیر خواہی کرتا ہے بصورتِ دیگر ……… اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
قائد کو سیدھا رکھنا
اس سے بڑھ کر یہ کہ قائد کو سیدھا رکھنا بھی عوام ہی کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق عیسائی لوگوں میں چار انتہائی اعلیٰ خوبیاں ہیں جن میں سے چوتھی، جو سب سے بڑی خوبی کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی لوگ اپنے ’’قائدین‘‘ کو سب سے زیادہ سیدھا رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ کام صرف اور صرف مسلمانوں کا ہی تھا۔ مثلاً امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی مجلس میں حاضرین سے پوچھنے پر ایک بوڑھے نے ننگی تلوار لہرا کر کہا کہ اگر تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے علاوہ اپنی خواہش کے مطابق حکم دے گا تو میری یہ تلوار تمہاری گردن تن سے جدا کر دے گی۔ اس پر امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی عمر کو سیدھا کرنے والے لوگ موجود ہیں۔
اس عہد زریں کے بعد بڑے بڑے ائمہ کرام اور صالحین لوگوں نے اپنے اپنے دور کے ’’قائدین‘‘ کو سیدھا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، خواہ اس مشکل ترین راہ میں اُنہوں نے جان سے ہاتھ دھو لیے یا جوانی اور بڑھاپا جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔ خواہ کوڑے مارنے سے اُن کی پیٹھ ٹیڑھی ہو گی یا ہاتھ ہمیشہ لٹکے ہی رہے، خواہ اُن کی نعشیں جیل سے برآمد ہوئیں یا بھری محفلوں میں انہیں تہِ تیغ کر دیا گیا، اُنہوں نے اپنے ’’قائدین‘‘ کو بہرحال سیدھا رکھا۔ بھلے اپنے ’’قائد‘‘ کی صرف ایک ہی غلط بات پر اُسے باز رکھنے کی کوشش کی۔ مثلاً زبردستی طلاق واقع ہونے کی ضد کو امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث کی رو سے غلط کہا اور ڈٹ گئے۔ وہ خود تو دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن گئے لیکن قائد کی غلط بات کو تسلیم نہ کر کے دین کوہمیشہ کے لیے زندہ کر گئے۔