کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 14
ان کا ’’دین‘‘ زندہ اور باقی ہے۔ مثال کے طور پر سابقہ امریکی صدر کلنٹن اپنے جنسی اسکینڈل پر پوری قوم سے معافی مانگتا ہے حالانکہ اُس کی پوری قوم ’’مادر پدر ننگی تہذیب‘‘ کی ’’مشترکہ ماں باپ‘‘ کی پیداوار ہے۔ نہ کسی کو اپنے باپ کا علم ہے اور نہ کسی کواپنی ماں کا۔ نہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے ’’بوائے فرینڈ‘‘ کے ساتھ راتیں گزارنے سے روک سکتا ہے اور نہ ہی باپ اپنی بیٹی کو۔ تو پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ فلاں فلاں کی بیٹی یا بیٹا ہے۔
یہ اعزاز صرف اور صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس میں نہ صرف خاندان کی روایات زندہ و پائندہ ہیں بلکہ عورتوں کو پردے میں بٹھا کر، غیر محرم مرد و زن کے اختلاط کو روک کر، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مرد و زن کو ’’زنا‘‘ سے روک کر، بالغ ہوتے ہی ان کی شادیاں کروا کر، اور زنا ہونے کی صورت میں پتھر مار مار کر ختم کرنے اور غیر شادی شدہ کو 100کوڑے اور ایک ایک سال کی جلاوطنی دے کر، انہیں دنیا میں سب سے بڑے فتنے(مردوں اور عورتوں کی آوارگی) سے مردوں کوبچا کر اسلامی غیرت و حمیت کا کامیابی سے دفاع کیا گیا ہے۔
سادگی و غربت والی زندگی اختیار کرنا
آجکل کے نام نہاد ’’قائدین‘‘ اور حکمرانوں سمیت کوئی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے جانشینوں نے اپنا تمام مال و دولت اللہ کی راہ میں لوگوں میں تقسیم کر کے ’’غربت زدہ‘‘ زندگی گزارنے کو کیوں ترجیح دی۔ ہماری نظر میں تو ایک ہی بات ہے کہ نبی کریم ا کی حدیث کے مطابق جب انسان کا پیٹ بھوک سے بیتاب ہو تو انسان اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا بلکہ تعلق بااَللّٰه مضبوط رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو تقویٰ بھی حاصل ہوتا ہے۔ وہ رات کو اٹھ کر اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجات اور اپنی رعایا کی بہتری کے لیے دعا گو رہتا ہے۔ اور قیامت کے دن چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور امیروں کی طرح جنت واجب ہونے کے باوجود مال و دولت کا حساب دیتے رہنے سے بھی بچ جاتا ہے۔ نہ کہ آجکل کے امراء کی طرح کہ راتیں شراب و شباب اور رقص و سرود کی محفلوں میں گزاریں اور صبح کو بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو کرعوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں۔