کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 139
سولی پر لٹکا دیا جائے اور بعض کا قول ہے قتل اور سولی پر لٹکانے میں اُسے اختیار ہے کیونکہ اگرچہ اس﴿بیورو کریٹ﴾ نے اس غارت گری اور لوٹ مار میں حصہ نہیں لیا اور نہ اسکی اجازت دی لیکن جب اُن﴿دہشت گردوں اور ڈاکوؤں﴾ کو پکڑاگیا اور ان پر قدرت پالی گئی تو اُس وقت وہ﴿بیورو کریٹ﴾ تقسیم مال میں شریک تھا اور بعض حقوق اور حدود کو اس نے بیکار کر دیا۔ جو شخص﴿یعنی حاکم، جاگیردار، بیورو کریٹ، اعلیٰ سول، پولیس یا فوجی حکام یا کوئی قاضی و جج﴾ محارب﴿لڑائی کرنے والے، دہشتگرد﴾، چور یا قاتل وغیرہ کو جس پر حد جاری کرنا واجب ہے اللہ اور بندے کا حق ادا کرنا فرض ہے اور بلا عدوان زیادتی کے پوراپورا حق دیا جاسکتا ہے لیکن یہ﴿صاحب﴾ ان کو پناہ دیتا ہے اس لیے کہ وہ مجرم ہے اور اُس کا شریک ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول ا نے لعنت بھیجی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَعْنَ اللّٰه مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ اٰوٰی مُحْدِثًا(رواہ مسلم ) اللہ نے اس﴿شخص﴾ پر لعنت بھیجی ہے جو جرم و گناہ کرے یا مجرم گنہگار کو پناہ دے۔ جب یہ ظاہر اور ثابت ہوجائے کہ فلاں آدمی نے محدث ﴿یعنی مجرم﴾ کو پناہ دی ہے تو اُس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مجرم کو حاضر کرے یا اُس کی خبر دے کہ فلاں جگہ فلاں جگہ و مقام پر ہے۔ اگر وہ حاضر کر دے یا خبر اور اطلاع دیدے تو ٹھیک وگرنہ اُسے حبس کی سزا دی جائے، اُسے مارا پیٹا جائے، بار بار پیٹا جائے یہاں تک کہ اصل مجرم پر قدرت و قابو حاصل ہوجائے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ادائِ مالِ واجب سے روکنے والے اور نہ دینے والے کو عتاب و سزا دی جائے۔ پس جن لوگوں کا حاضر کرنا ضروری اور واجب ہے اور جنہوں نے مال لوٹا ہے اور اس کا واپس کرنا اور دینا ضروری ہے اور اس سے وہ﴿حاکم، بیورو کریٹ، جج یا جاگیردار﴾ منع کرتا ہے یا روکتا ہے تو ایسے شخص کو عقوبت و سزا دی جائے۔ اگر کوئی شخص مال حق و مطلوب یا آدمی حق مطلوب کو جانتا ہے لیکن اسے روکتا اور چھپاتا نہیں ہے تو اس پر واجب ہے کہ مال مطلوب اور شخص مطلوب کا پتہ بتلا دے کیونکہ اس کے لیے اس کا چھپانا قطعاً جائز نہیں ہے کیونکہ یہ نیکی اور تقویٰ کا تعاون ہے اور نیکی و تقویٰ کا تعاون واجب ہے بخلاف اس کے کہ کوئی جان و مال باطل طریقہ پر مطلوب ہوتو اس کابتلانا اور اس کی خبر دینا قطعاً جائز نہیں کیونکہ یہ اثم و