کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 13
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں بھی مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے کہ جب انہوں نے قوم کے ساتھ میلے میں شرکت نہ کی۔ قوم کو کھیل کود اور تماش بینی میں مشغول دیکھ کر اُن کے عقائد پر ضربِ کاری لگائی اور سوائے ایک کے باقی تمام بتوں کو توڑ دیا جنہیں وہ اللہ کے ہاں اپنا ’’سفارشی‘‘ سمجھا کرتے تھے ۔
ان چار لائنوں سے کئی سبق ملتے ہیں مثلاً:
1۔ کھیل تماشے کی بجائے اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے لیے قدم اٹھانا۔
2۔ لوگوں کی سیاہ کاریوں میں ملوث ہونے سے اپنے آپ کو بچانا۔
3۔ اکیلے آدمی کا لوگوں کے عقائد پر ضربِ کاری لگانا۔ اور انہیں تہس نہس کر دینا۔
4۔ برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ’’بڑی جماعت‘‘ کی ضرورت نہیں بلکہ ایک آدمی جو کچھ بھی کر سکے اُسے کرنا چاہیئے۔
5۔ ،ne man acti،n یعنی ایک ہی آدمی کی کاروائی کا فائدہ۔
6۔ آدمی کے ذہن میں جو پلان ہے وہ اس پر عمل کرنے سے پہلے کسی کو اسکی بھنک بھی نہ آنے دے۔
7۔ اکیلے آدمی(خواہ وہ قائد ہو یا رعایا میں سے عام انسان) کا پلان بنانا اور اکیلے ہی اس پر عمل کرنے سے سیکورٹی کی انتہائی اعلیٰ اقدار حاصل کی جا سکتی ہیں۔
دلچسپ بات
ہم دیکھتے ہیں کہ ’’مسلمان‘‘ اپنے ’’داڑھی‘‘ رکھے ہوئے ہر شخص کو(بھلے وہ عالم ہو یا جاہل) ہر لحاظ سے(گناہوں سے بالکل پاک صاف) ’’فرشتہ‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں، ان میں کسی قسم کی میل کچیل، گناہ یا کسی قسم کی کوئی لغزش دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے جبکہ عیسائی لوگ اپنے ’’قائد‘‘ کو ہر لحاظ سے(گناہوں سے بالکل پاک صاف) ’’فرشتہ‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں،ا س میں کسی قسم کی میل کچیل، گناہ یا کسی قسم کی کوئی لغزش دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں میں ’’قائد‘‘ زندہ ہیں جبکہ مسلمانوں میں