کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 12
گا اور تمہیں ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔
اسی طرح فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰه یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(سورۃ محمد:7)
اے ایمان والو! اگر تم اللہ(کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
قائد! اپنی پوری قوت سے برائی کو ختم کرے
قائد کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ غیر مسلم برائی کو مسلمان معاشرے میں پھیلاتے جارہے ہیں، ایک نارمل مسلمان جب اس برائی کو دیکھتا ہے تو اُس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے لیکن حکمران اور اُس کی انتظامیہ کے لوگ، عام مسلمان کو برائی کے خلاف بات کرنے اور برائی کو ہاتھ سے روکنے سے منع کرتے ہیں، مولوی حضرات اس برائی کے خلاف فتویٰ نہیں دیتے بلکہ ’’حکمت‘‘ سے کام لینے کی تلقین فرماتے ہیں۔ چنانچہ حکمران اور علماء عام مسلمان کو ’’عقل سے سوچنے‘‘ کی دعوت دیتے ہیں کہ کیوں اپنی جان کے دشمن بنتے ہو، پولیس ہے، فوج ہے، حکومت ہے وہ یہ کام خود کر لیں گی، تمہارے اوپر فرض نہیں۔ جب تک وہ مسلمان کچھ سوچتا ہے، اُس وقت تک وہ برائی پورے معاشرے کی گھٹی میں پڑ چکی ہوتی ہے، جس کا تدارک ناممکن ہو جاتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: من رأیٰ منکم منکراً … کہ جوکوئی تم میں سے برائی کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے … لہٰذا قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر پوری طاقت سے اس ’’برائی کے اسباب‘‘ کا سدِّباب عوام الناس کے ہاتھوں سے کروا دے۔ اس سے پہلے کہ غیر مسلم، ان کے کارندے، ’’جدید مسلم‘‘ حکومتیں اور ’’جدید علماء‘‘ عام مسلمان کو عقل سے سوچنے کی دعوت دیں اور اس کے دینی جذبات کو ٹھنڈا کر دیں۔ جب عام مسلمان عقل سے سوچتا ہے تو اُس کی دینی غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے، توکل علی اللہ والی خوبی ماند پڑ جاتی ہے، وہ تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے والی اطاعت ختم ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اسلام کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے کی تمنا بھی دم توڑ جاتی ہے۔