کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 104
ایسے مقدس لوگ تھے کہ ان کے عطیہ سے دین کی اصلاح ہوتی تھی۔ اور وہی چیز وہ لیتے تھے جو اُن کے لیے مباح تھی۔ اُن کا غضب و غصہ رب العالمین کے لیے ہوتا تھا اور اس وقت ہوتا تھا جبکہ حدود اللہ توڑی جاتی تھیں اور اپنا حصہ، اپنا حق معاف کر دیتے تھے۔ یہ اخلا ق نبوی تھے، مال خرچ کرنے میں مال کے لینے میں اور جو کچھ آپ کر تے تھے کامل اور مکمل تھا۔ اور جوشخص ان اخلاق کے قریب ہو گا وہ افضل وبر تر ہو گا، پس مسلمانوں کا فرض اوّلین ہے کہ پوری پوری کوشش کریں اور طریق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہو جائیں اور کوشش کے بعد اپنے قصور تقصیر اور خطا کی معافی کے لیے بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کریں۔ اور سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے کامل و مکمل ہے۔ اور یہ اُمور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں موجود ہیں: اِنَّ اللّٰه یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا[1] (نسا:58) مسلمانو! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت رکھوانے والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرو۔ امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حجۃاللہ البالغہ کے اندر باب ارتفاقات و اصلاح الرسوم میں رومیوں اور عجمیوں کا حا ل لکھا ہے، ہم اس کی تلخیص یہا ں پیش کرتے ہیں، اس پر غور کیجئے اور ’’اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا‘‘ کی بحث سا منے لے آیئے، اور غور کیجئے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، اور دنیا کدھر جا رہی ہے؟ اور دنیا کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے، شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: رومیو ں اور عجمیوں کو جب خلافت ملی اور طویل مدت تک و ہ اس منصب پر سرفراز رہے، تو لذّات دنیا میں گم ہو کر رہ گئے، اور شیطان ان پر ایسا مسلط ہو گیا کہ زیا دہ سے زیا دہ اسباب عیش فراہم کرنا او ر ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی خوش حالی و نمائش کرنا، ان کی زندگی کا مقصد قرار پا گیا۔ عقل و حکمت کا استعمال بھی ان کے یہاں بس
[1] یہ ہے وہ اسلامی حکومت جسے اللہ کی حکومت کہا جاتا ہے۔ اور’’ سروری دردین ما خدمت گریست ‘‘ اسی کا نام ہے۔ آج کرۂ زمین پر بڑی بڑی حکو متیں قائم ہیں، لیکن کھوج لگاؤ کہ اَنْ تُؤدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰیٓ اَہْلِہَا۔ کا وجود بھی ملتا ہے؟ اسلامی سلطنتو ں پر نگاہ ڈالو کہ کہیں بھی لا لنفسہ ولکن لربہ حکومت ہوئی ہے؟ ساری دنیا ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ سا ری دنیا پر آج وہی رنگ چڑھا ہوا ہے جو اسلام سے قبل روم و عجم پر چڑھا ہوا تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔