کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 102
کیونکہ جو لوگ پرہیزگاری کرتے ہیں اور جو حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اللہ انکا ساتھی ہے
اور یہ وہی ہے کہ لوگوں کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا جائے۔ ان کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ اور خود حلال وطیب کھائیں۔ اور یہ کہ اوپر کے لوگ(یعنی حاکم و بااختیار لوگ) خرچ کم کر دیں کیونکہ قدرتی بات ہے کہ اوپر کے بسنے والے سے لوگ لینے کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں، عفیف(سفید پوش) سے اتنی تمنا نہیں رکھتے[1] اور جس قدر عفیف سے لوگ اپنی اصلاح کر لیتے ہیں غیر عفیف سے نہیں کرسکتے۔
غر ض یہ کہ رعایا پروری کا تقاضا یہ ہے کہ رعیت کا پورا پورا خیال رکھا جائے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا اچھاکہا ہے۔
بررعیت ضعیف رحمت کن تا از دشمن قوی زحمت نہ بینی ضعیف و کمزور رعیت پر رحم کرو تاکہ قوی دشمن سے زحمت نہ اٹھاؤ
اور سچ تو یہ ہے کہ زمین اللہ کا ملک ہے، اس پر اللہ ہی کا دستور اور حکومت چلنی چاہیئے۔ اسی سے دنیا و آخرت درست ہو سکتی ہے اور سب کی ذمہ داری دو گروہوں پر ہے، اور وہ امراء اور علماء ہیں۔ اگر یہ دونوں گروہ درست ہیں تو ساری مخلوق اور معاشرت درست ہو جائے گی، اگر یہ ناہموار ہیں تو ہر چیز(مثلاً معاشرت، معیشت، دولت و حکومت) ناہموار ہو گی۔
کیونکہ قدرت و امکان کے ساتھ عفت سے کام لینا، یہی تقویٰ اور دین کی حرمت ہے۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو سفیان بن حر ب سے روایت ہے کہ ہرقل شاہ روم نے ابو سفیان کو جواب دیتے ہوئے کہا یہ پیغمبر کیا تعلیم دیتے ہیں؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا وہ ہمیں نماز پڑھنے کو کہتے ہیں، سچائی و پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں۔
اور ایک اثر میں ہے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی اتاری کہ اے ابراہیم تمہیں خبر
[1] مثلًا سلاطین اور بادشاہ وزراء اور ان کے نائب، گورنر اور ان کے نائب۔ اگر آج کل کی نمائشی جمہوری حکومت کے صدر۔ غرض طبقہء بالا کا پورے ملک پر، پوری سلطنت پر اثرپڑا کرتا ہے، اگر اوپر کا طبقہ صالح ہے تو سارا ملک سا ری سلطنت صالح ہو جائے گی۔ اور برا ہے تو ساری سلطنت پر اس کا اثر پڑے گا۔ رعایا پروری کا اقتضاء یہ ہے کہ رعیت کی فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ پیش نظر رکھا جائے شیخ سعدی رحمہ اللہ کا مقولہ ہے ۔
گو سپند از برائے چوپان نیست بلکہ چوپان برائے خدمت اوست
اگر بالائی طبقہ کے لوگ لیں گے، کھائیں گے تو ماتحتوں سے کفایت شعاری کی امیدیں بیکا ر ہیں۔ سب لیں گے، کھائیں گے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا اچھا کہا ہے ۔
بہ پنج بیضہ کہ سلطان ستم روا دارد زنند لشکر یانش ہزار مرغ بسیخ!