کتاب: حکمران بیور و کریسی اور عوام - صفحہ 10
تمام مال و دولت اور دیگر اشیاء، مثلاً خمس اور مالِ غنیمت وغیرہ کا حصہ، اور اپنی جیب سے بھی لوگوں کی تألیف قلب کے لیے خرچ کر دے تو لوگ اپنے قائد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ قائد اپنے لوگوں پر ’’ٹیکس‘‘ نہ لگائے، مالی بوجھ نہ ڈالے۔ مثلاً امیر المؤمنین ابوبکر صدیق اور عمر فاروق ث اور بنو امیہ کا شہزادہ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ، یہ سب مسلمانوں کے قائد بنے تو اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کروا دی اور بیت المال سے صرف اتنا وظیفہ لیتے کہ گھر میں صرف ضرورت کے مطابق روٹی بنتی اور ایک ایک جوڑا بناتے، جمعہ کے روز اُسی جوڑے کو دھو کر دوبارہ پہنتے حتی کہ پھٹ جاتا۔ اس سے زیادہ کبھی بھی نہیں لیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ لیجئے کہ خمس کی رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی تھی، یعنی مالِ غنیمت میں اگر ایک لاکھ اشرفیاں آتیں تو ان میں سے بیس ہزار اشرفیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہوتیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کوئی اشرفی شام تک اپنے پاس نہ چھوڑی بلکہ سب کی سب عوام الناس میں بانٹ دیں۔ یہی وجہ تھی کہ تمام صحابہ کرام ث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان سے زیادہ عزیز جانتے تھے۔ کسی بھی طرح لوگوں کے گھروں، دوکانوں وغیرہ میں جاسوسی نہ کروائے، اُن کی جان کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھے، کسی کو اپنے سے حقیر نہ جانے، کالے کو گورے پر ترجیح نہ دے، معاملات میں اپنی برادری کو آگے نہ رکھے، ہمیشہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ کسی بات کا اہل ہو اُسے آگے لائے، سب لوگوں کو ایک ہی تعلیم دے پھر جو کوئی سب سے بہتر ہو اُسے کسی منصب پر فائز کرے، بھلے وہ کسی مزدور کا بیٹا ہو۔ کیونکہ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ حکمران اپنے ’’بیٹوں، بیٹیوں‘‘ اور دیگر رشتہ داروں کو ہی ’’اچھی تعلیم‘‘ دلاتے ہیں اور غریب لوگوں کے لیے ’’تعلیم‘‘ حاصل کرنے کے تمام راستے بند کر دیتے ہیں تاکہ نہ تو عوام میں سے کوئی تعلیم حاصل کرے اور نہ ہی کبھی کوئی اُن کے سامنے بولنے کی جرأت کر سکے نتیجتاً اُن کی ’’حکومت و دولت‘‘ ہمیشہ قائم رہے۔ قائد کو اللہ کے علاوہ کسی کا خوف یا ڈر نہ ہو ہر نماز میں جب قائد ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘کہتا ہو،اپنا رب صرف اللہ ہی کو جانتا ہو،