کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 99
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھنے کے لیے کوئی مخصوص گھڑی اور ساعت مقرر نہیں کی اور نہ ہی کسی وقت میں اس کے باندھنے سے روکا ہے۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالاتفصیل سے یہ بات واضح ہوچکی ہے ، کہ احرام کے لیے کوئی مخصوص نماز نہیں۔ لہٰذا حج و عمرہ کا ارادہ کرنے والا رات اور دن کی جس ساعت میں چاہے ، میقات سے احرام باندھ سکتا ہے ، اگرچہ وہ وقت نماز کے اوقاتِ ممنوعہ سے ہو۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلٰی تَیْسِیْرِہِ۔
۷۔ معلّق احرام باندھنے کا جواز:
حج و عمرہ کی آسانیوں میں سے ایک معلق احرام باندھنے کا جواز ہے۔ اس احرام کی شکل یہ ہے ، کہ مثال کے طور پر خالد کہے ، کہ میرا احرام زید کے احرام کی مانند ہے، تو جس نوعیت کا احرام زید کا ہو گا، ویسا ہی خالد کا ہو گا۔ [1]
اس بارے میں دو روایات ملاحظہ فرمائیے:
۱: امام مسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے حجۃ الوداع کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا:
’’علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے ہمراہ آئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
’’ مَا ذَا قُلْتَ حِیْنَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟‘‘
’’حج فرض کرتے وقت تم نے کیا کہا؟‘‘
[1] علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’ وَیَصِحُّ إِبْہَامُ الإِحْرَامِ ، وَہُوَ أَنْ یُحْرِمَ بِمَا أَحْرَمَ بِہِ فُلَانٌ۔‘‘ (المغني ۵؍۹۷)۔ [احرام کا مبہم کرنا درست ہے اور وہ یہ ہے: (کہ وہ نیت کرے) کہ وہ فلاں شخص کی طرز کا احرام باندھ رہا ہے۔]اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ، کہ علامہ ابن قدامہ نے اسے [احرام مبہم] کا نام دیا ہے۔ اور اس میں کچھ حرج نہیں۔ وَلَامُشَاحَۃَ فِيْ الْاِصْطِلَاحِ۔