کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 68
تنبیہ:
امام بیہقی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے فرمایا:
’’ حَلَّتِ الْعُمْرَۃُ فِي السَّنَۃِ کُلِّہَا إِلَّا فِيْ أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ: یَوْمُ عَرَفَۃَ، وَیَوْمُ النَّحْرِ ، وَیَوْمَانِ بَعْدَ ذٰلِکَ۔‘‘ [1]
’’چار دنوں کے سوا عمرہ سارے سال میں جائز ہو گیا: یومِ عرفہ[2]، یوم النحر [3]اور اس کے بعد دو دن[4]۔‘‘
حضراتِ احناف کے نزدیک پانچ دنوں: یوم عرفہ ، یوم النحر اور تین ایامِ تشریق[5]، میں عمرہ کرنامکروہ ہے۔ انہوں نے مذکورہ بالا قول سے استدلال کیا ہے۔[6]
حضراتِ شوافع کے نزدیک ان دنوں میں بھی حجاج کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے عمرہ کرنا درست ہے ۔ ان کی رائے میں یہ قول صرف حجاج کے متعلق ہے۔ امام بیہقی لکھتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک یہ قول اس شخص کے بارے میں ہے ، جو حج میں مشغول ہو۔ وہ اعمالِ حج مکمل کرنے سے پہلے نہ عمرے کا احرام باندھے اور نہ عمرہ کرے۔‘‘ [7]
امام بیہقی نے ان دنوں میں عمرہ کرنے کی تائید میں درج ذیل دو باتیں بھی ذکر کی ہیں:
[1] السنن الکبریٰ ،کتاب الحج، باب العمرۃ في أشہر الحج، رقم الروایۃ ۸۷۴۱، ۴؍۵۶۵۔
[2] یعنی نو ذوالحجہ ، حاجیوں کے عرفات میں ٹھہرنے کا دن۔
[3] قربانی کا دن یعنی دس ذوالحجہ۔
[4] گیارہ اور بارہ ذوالحجہ۔
[5] یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن۔
[6] ملاحظہ ہو: بدائع الصنائع ۲؍۲۲۷، البتہ قاضی ابو یوسف کے نزدیک یوم عرفہ میں زوال سے پہلے عمرہ کرنا مکروہ نہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍۲۲۷)۔
[7] السنن الکبریٰ ۴؍۵۶۵۔