کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 64
- ج -
عمرے سے متعلّقہ آسانیاں
۱۔ عمرے کی سارا سال اجازت ہونا:
عمرے کی آسانیوں میں سے ایک یہ ہے ، کہ اس کے ادا کرنے کے لیے کوئی مخصوص وقت متعین نہیں، بلکہ یہ سال کے سب مہینوں، دنوں اور اوقات میں جائز ہے۔اس سلسلے میں ذیل میں پانچ دلائل ملاحظہ فرمائیے:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ ۶ہجری میں عمرے کے لیے تشریف لائے۔ قریش کے روکنے اور پھر صلح حدیبیہ کے بعد عمرے کے بغیر واپس تشریف لے گئے۔
ذوالقعدہ ۷ ہجری میں مکہ مکرمہ تشریف لاکر عمرہ کیا۔
ذوالقعدہ ۸ ہجری میں فتح حُنین کے بعد جَعِرَّانَہ سے عمرے کے لیے تشریف لائے۔
پھر دس ہجری میں حجۃ الوداع کے ساتھ عمرہ کیا۔ [1]
ب: امام بخاری نے عکرمہ بن خالد سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حج سے پہلے عمرہ کرنے کے متعلق سوال کیا ، تو انہوں نے جواب دیا:
’’لَا بَأْسَ۔‘‘ [کوئی حرج نہیں۔]
[1] ملاحظہ ہو: زاد المعاد ۲؍۹۰۔۹۲۔ نیز ملاحظہ ہو: صحیح البخاري ، کتاب العمرۃ ، باب کم اعتمر النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ، ۳؍۵۹۹۔ ۶۰۰ ؛ و صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بیان عدد عمر النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و زمانہن، رقم الحدیث ۲۱۷۔ (۱۲۵۳) ۲؍ ۹۱۶۔