کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 49
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز اد اکی ، پھر (اپنی اونٹنی) قصواء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جبل) بیداء پر چڑھ گئے۔ میں نے تاحدِ نگاہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سوار اور پیدل دیکھے، اسی طرح آپ کے دائیں جانب، اسی طرح آپ کے بائیں جانب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھی اسی طرح۔‘‘] ان دونوں دلیلوں کے حوالے سے تین باتیں: ا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حج کے لیے ندا قبول کرنے والوں کے متعلق بیان فرمایا ، کہ وہ پیدل اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں گے۔ امام ابن قصار ارشادِ باری تعالیٰ {یَأْتُوْکَ رِجَالًا} [وہ آپ کے پاس پیدل آئیں گے] کے بارے میں کہتے ہیں: یہ امام مالک کے لیے قطعی دلیل ہے ، کہ سواری کا ہونا راستے کی شرط نہیں۔ (ان کے )مخالف لوگوں کے نزدیک (سواری میسر نہ آنے پر) پیدل جانے والوں پر حج واجب نہیں ہوتا۔ ان کا ایسے کہنا آیت کے خلاف ہے۔[1] علامہ قرطبی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ لَا خَلَافَ فِي جَوَازِ الرَّکُوْبِ وَالْمَشْيِ۔‘‘ [2] ’’(حج کے لیے)سوار ہو کر اور پیدل جانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ ب: حدیث شریف سے یہ بات واضح ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کے لیے آنے والوں میں پیدل اور سوار دونوں قسم کے لوگ تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر روک ٹوک نہ کرنا ، ان دونوں صورتوں میں سفرِ حج کے جواز پر دلالت
[1] ملاحظہ ہو: شرح صحیح البخاري لابن بطال ۴؍۱۸۸۔ [2] تفسیر القرطبي ۱۲؍۳۹۔