کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 39
وہ [طوافِ وداع] کیے بغیر روانہ ہو جائے۔ ایسا کرنے سے نہ اس کے حج میں کچھ خلل ہو گا اور نہ ہی اس پر کوئی فدیہ لازم آئے گا۔ [1] اللہ کریم نے اپنے دین کو سراپا آسانی بنانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سہولت کرنے والا بنا کر مبعوث کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ امتِ اسلامیہ کو بھی آسانی کرنے والی اُمت بنا کر بھیجا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ ، وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ۔‘‘ [2] ’’یقینا تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔‘‘ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو آسانی کرنے والا حکم دیا اور تنگی کرنے سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا ، وَبَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا۔‘‘ [3] ’’آسانی کرو او ر تنگی نہ کرو، بشارت دو اور نفرت نہ دلاؤ۔‘‘
[1] تفصیل کے لیے اس کتاب کا ص ۳۶۵ دیکھیے۔ [2] ملاحظہ ہو: صحیح البخاري ، کتاب الأدب، باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’یَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوْا‘‘، جزء من رقم الحدیث ۶۱۲۸، عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ ۔ [3] المرجع السابق، کتاب العلم، باب ما کان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم یتخوّلہم بالموعظۃ کي لا ینفروا ، رقم الحدیث ۶۹، ۱؍۱۶۳ عن انس رضی اللّٰه عنہ ۔ تنبیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ پہلا جملہ [یَسِّرُوا] [آسانی کرو] دوسرے جملے [وَلَا تُعَسِّرُوْا] [تم تنگی نہ کرو] سے کفایت کرتا ہے ، لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کی بجائے دو جملے استعمال فرمائے۔ اس بارے میں محدثین کی بیان کردہ حکمتوں میں سے دو درج ذیل ہیں: ۱۔دوسرے جملے سے پہلے جملے میں بیان کردہ حکم کی تاکید کی گئی ہے۔ ۲۔ پہلے جملے پر اکتفا کرنے کی صورت میں ایک دفعہ آسانی کرنے والا اپنے متعلق یہ سمجھ سکتا تھا، کہ وہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کر چکا ہے ، لیکن دوسرے جملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حالتوں میں تنگی کی نفی کر کے مسلسل آسانی اور ہمیشہ تنگی سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱؍۱۶۳)۔