کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 37
{وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ} [1]
[اور انہوں (یعنی اللہ تعالیٰ)نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ حقیقت واضح فرمائی ، کہ دین ِاسلام سراپا آسانی ہے، ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ۔‘‘ [2]
’’بلا شبہ دین سراپا آسانی [3]ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنِّيْ أُرْسِلْتُ بِحَنِیْفِیَّۃِ سَمْحَۃٍ۔‘‘ [4]
’’بے شک مجھے (ابراہیم)حنیف۔ علیہ السلام ۔ کے آسان دین کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘
ایک تیسری حدیث میں ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ دِیْنَ اللّٰہِ فِيْ یُسْرٍ۔‘‘
’’اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ کا دین آسانی میں ہے۔‘‘
[1] سورۃ الحج؍جزء من الآیۃ ۷۸۔ اس آیت شریفہ کے حوالے سے درج ذیل دو باتیں خصوصی طور پر قابل توجہ ہیں:
۱۔ (الدِّیْن) میں [ال] استغراق کے لیے ہے اور مراد یہ ہے ، کہ دین کے تمام معاملات میں تنگی نہیں رکھی۔(ملاحظہ ہو: تفسیر القاسمي ۱۲؍۶۸۔۶۹؛ و روح المعانی ۱۷؍۲۰۹)۔
۲۔ (مِنْ حَرَجٍ) [کوئی تنگی] [حَرَجٍ] اسم نکرہ ہے اور اس سے پہلے [مِنْ] حرف جار ہے اور مراد یہ ہے ، کہ تم پر دین کے تمام معاملات میں کسی بھی قسم کی کوئی تنگی نہیں رکھی۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔
[2] صحیح البخاري ،کتاب الإیمان ، جزء من رقم الحدیث ۳۹، ۱؍۹۳، عن ابي ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ
[3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱؍۹۳۔
[4] المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۴۸۵۵، ۴۱؍۳۴۹، عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا ۔ شیخ شعیب ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اسے [قوی] اور اس کی [سند کو حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۴۱؍۳۴۹)۔