کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 36
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}[1]
[اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتے ہیں اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتے۔]
وہ اپنے بندوں کی کمزوریوں سے خوب آگاہ ہیں اور ان پر شفقت فرماتے ہوئے ان پر تخفیف فرمانا چاہتے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:
{یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۔} [2]
[اللہ تعالیٰ تم سے بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔]
اسی لیے اللہ عزوجل نے اپنے دینِ اسلام میں کوئی تنگی نہ رکھی ، ارشادِ ربانی ہے:
[1] سورۃ البقرۃ؍جزء من الآیۃ ۱۸۵۔ اس آیت شریفہ کے حوالے سے درج ذیل تین باتیں خصوصی طور پر قابل توجہ ہیں:
۱۔اللہ تعالیٰ نے فعل مضارع [یُرِیْدُ] استعمال فرمایا ہے ، جس سے مراد دائمی حالت ہوتی ہے۔ مقصود یہ ہے ، کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی تمہارے ساتھ سہولت کا ارادہ فرماتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: البحر المحیط ۲؍۴۹)۔
۲۔[الْیُسْرَ] اور [الْعُسْرَ] میں عموم ہے ، کہ وہ دین کے تمام معاملات میں تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتے ہیں اور تنگی کا ارادہ نہیں کرتے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۲؍۳۱؛ نیز ملاحظہ ہو: البحر المحیط ۲؍۴۹)۔ علامہ شوکانی لکھتے ہیں: ’’فِیْہِ اِنَّ ہٰذَا مَقْصَدٌ مِنْ مَقَاصِدِ الرَّبِّ سُبْحَانَہ و مُرَادٌ مِنْ مُرَادَاتِہِ فِيْ جَمِیْعِ أُمُوْرِ الدِّیْنِ۔‘‘ (فتح القدیر ۱؍۲۸۲)۔ [اس میں یہ ہے، کہ بے شک دین کے تمام معاملات میں یہ رب سبحانہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد اور مرادوں میں سے ایک مراد ہے۔]
۳۔پہلا جملہ {یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ} [اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتے ہیں]دوسرے جملے {وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ} [اور وہ تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتے]سے کفایت کرتا ہے، لیکن تاکید کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دوسرا جملہ فرمایا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۲؍۳۱؛ والبحر المحیط ۴؍۴۹ ، و تفسیر التحریر والتنویر ۲؍۱۷۵)۔
[2] سورۃ النسآء؍ الآیۃ ۲۸۔