کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 256
یَخْلِطَہَا بِتَکْبِیْرٍ أَوْ تَہْلِیْلٍ۔‘‘[1]
’’اس ذات کی قسم جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! بے شک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ نہ چھوڑا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ (بسا اوقات) تکبیر یا تہلیل ملالیتے۔‘‘
دونوں حدیثوں کے حوالے سے تین باتیں:
ا: پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے تلبیہ اور تکبیر دونوں میں سے جو چاہے، اس کا پکارنا درست ہے۔
ب: دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ پکارنا، یا اس کے ساتھ تکبیر یا تہلیل ملانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
ج: پہلی حدیث پر امام بخاری نے حسبِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[بَابُ التَّلْبِیَۃِ وَالتَّکْبِیْرِ إِذَا غَدَا مِنْ مِنَی إِلٰی عَرَفَۃَ] [2]
[منیٰ سے عرفات جاتے وقت تلبیہ اور تکبیر کہنے کے متعلق باب]
امام نووی نے اس پر درجِ ذیل عنوان لکھا ہے:
[بَابُ التَّلْبِیَۃِ وَالتَّکْبِیْرِ فِيْ الذِّہَابِ مِنْ مِنَی إِلٰی عَرَفَاتٍ فِيْ یَوْمِ عَرَفَۃَ] [3]
[عرفہ کے دن منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے تلبیہ اور تکبیر پکارنے کے
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۳۹۶۱، ۶/۲۸۔ شیخ احمد شاکر نے اس کی (سند کو صحیح) قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۶/۲۸)۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں، کہ اسے ابن ابی شیبہ اور طحاوی نے بھی روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۵۳۳)۔
[2] صحیح البخاري ۳/۵۱۰۔
[3] صحیح مسلم ۲/۹۳۳۔