کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 250
لوگوں کے نمازِ فجر سے پہلے رمی کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔[1] د: حضراتِ احناف، امام مالک اور امام احمد کے نزدیک رمی جمرہ کے وقت کی ابتدا طلوع فجر سے ہوتی ہے۔[2]اس سے پہلے رمی کرنا درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ ان کے بھیجے ہوئے کمزور لوگ نمازِ فجر کے وقت منیٰ پہنچنے کے بعد رمی کرتے تھے۔ اس رائے کی تائید امام بیہقی کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کردہ حدیث سے بھی ہوتی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواتین اور گھر کے ناتواں لوگوں کو مزدلفہ سے منیٰ روانہ کرتے وقت فرمایا: ’’وَأَنْ لَّا یَرْمُوْا الْجَمْرَۃَ إِلَّا مُصْبِحِیْنَ۔‘‘[3] ’’وہ رمی جمرہ صبح کے وقت ہی کریں۔‘‘ ہ: حضراتِ ائمہ نخعی، مجاہد، ثوری اور ابوثور کے نزدیک رمی کے وقت کا آغاز طلوعِ آفتاب سے ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر کسی کے لیے بھی رمی کرنا درست نہیں۔ ان کی دلیل امام ابوداؤد کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کردہ حدیث ہے،
[1] ملاحظہ ہو: المفہم ۳/۳۹۶؛ وشرح الطیبي ۶/۱۹۹۶۔ اس رائے کی تائید میں امام ابوداؤد کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت کردہ حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو رات ہی کو مزدلفہ سے منیٰ بھیج دیا تھا اور انہوں نے فجر سے پہلے رمی کی۔ (ملاحظہ ہو: سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب التعجیل من جمع، رقم الحدیث ۱۹۴۰، ۵/۲۹۰)؛ لیکن امام احمد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ شیخ البانی کی بھی یہی رائے ہے۔ (ملاحظہ ہو: تہذیب السنن ۵/۲۹۱؛ وإرواء الغلیل، رقم الحدیث ۱۰۷۷، ۴/۲۷۷۔۲۷۹)؛ البتہ امام نووی نے اسے (صحیح) کہا ہے اور شیخ شنقیطی نے ان کی تائید کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: أضواء البیان ۵/۲۷۶۔۲۷۷)۔ [2] ملاحظہ ہو: شرح الطیبي ۶/۱۶۹۶؛ والمغني ۵/۲۹۵۔ [3] ملاحظہ ہو: السنن الکبری، کتاب الحج، باب الوقت المختار لرمي جمرۃ العقبۃ، جزء رقم الحدیث ۹۵۶۷، ۵/۲۱۶۔ شیخ البانی نے اس کی [سند کو جید] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: إرواء الغلیل ۴/۲۷۵؛ نیز ملاحظہ ہو: بدائع الصنائع ۲/۱۳۷)۔