کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 248
’’بے شک ہم تو منیٰ اندھیرے ہی میں آگئے ہیں۔‘‘
اور سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’فَقُلْتُ: إِنَّا رَمَیْنَا الْجَمْرَۃَ بِغَلَسٍ۔‘‘[1]
’’میں نے عرض کیا: [بے شک ہم نے تاریکی (ہی) میں رمی جمرہ کی ہے۔‘‘
د: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’نَزَلْنَا الْمُزْدَلِفَۃَ، فَاسْتَأْذَنَتِ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم سَوْدَۃٌ رضی اللّٰه عنہا أَنْ تَدْفَعَ قَبْلَ حَطْمَۃِ النَّاسِ، وَکَانَتِ امْرَأَۃً بَطِیْئَۃً فَأَذِنَ لَہَا۔ فَدَفَعَتْ قَبْلَ حَطْمَۃِ النَّاسِ۔‘‘[2]
’’ہم نے مزدلفہ میں پڑاؤ ڈالا، تو سودہ رضی اللہ عنہا نے، جو کہ بھاری بھر کم بدن کی خاتون تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں کی بھیڑ سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت طلب کی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے نکل گئیں۔‘‘
ان احادیث کے حوالے سے پانچ باتیں:
ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین اور کمزور لوگوں کو یہ سہولت دی، کہ وہ مزدلفہ سے رات ہی کو منیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں۔
ب: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ ان لوگوں کی مزدلفہ سے روانگی چاند ڈوبنے کے ساتھ ہوئی۔ امام بخاری اور امام نووی کے مذکورہ بالا
[1] منقول از: عمدۃ القاري ۱۰/۱۸۔ مقصود یہ ہے، کہ ہم نے رمی جمرہ قبل از وقت کی ہے۔
[2] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الحج، جزء من رقم الحدیث ۱۶۸۱، ۳/۵۲۷؛ وصحیح مسلم، کتاب الحج، جزء من رقم الحدیث ۲۹۲، (۱۲۹۰)، ۲/۹۳۹۔ الفاظِ حدیث صحیح لبخاري کے ہیں۔