کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 247
تو انہوں نے کچھ دیر کے لیے نماز پڑھی، پھر پوچھا: ’’کیا چاند ڈوب گیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’منیٰ کے لیے رختِ سفر باندھو۔‘‘ ہم نے رختِ سفر باندھا اور چلتے رہے، یہاں تک کہ (منیٰ پہنچ کر) انہوں نے جمرہ کو کنکریاں ماریں، پھر انہوں نے اپنی جائے قیام میں واپس آکر نمازِ صبح ادا کی۔ میں نے ان سے عرض کیا: ’’یَا ہَنْتَاہُ! مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ غَلَّسْنَا۔‘‘ ’’محترمہ! میرا خیال ہے، کہ ہم نے (قبل از وقت) تاریکی ہی میں کام سر انجام دے لیے ہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’یَا بُنَيَّ! إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَدْ أَذِنَ لِلظَّعْنِ۔‘‘[1] ’’اے میرے چھوٹے سے بیٹے! بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لیے اجازت دی ہے۔‘‘ امام مالک کی روایت میں ہے: ’’لَقَدْ جِئْنَا مِنًی بِغَلَسٍ۔‘‘[2]
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الحج، رقم الحدیث ۱۶۷۹، ۳/۵۲۶؛ وصحیح مسلم، کتاب الحج، رقم الحدیث ۲۹۷۔ (۱۲۹۱)، ۲/۹۴۰۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔ [2] الموطأ، کتاب الحج، باب تقدیم النساء والصبیان، جزء من رقم الروایۃ ۱۷۲، ۳۹۱۔ مراد یہ ہے، کہ ہم منیٰ میں مشروع وقت سے پہلے داخل ہوگئے ہیں۔