کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 222
ب: حضرات ائمہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت مُضَرِّس بن اوس بن حارثہ بن لام طائی سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں مزدلفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کے نمازِ (فجر) کی غرض سے نکلنے کے وقت حاضر ہوا اور عرض کیا:
’’بے شک میں طی کے دو پہاڑوں [1] سے آیا ہوں۔ میں نے اپنی سواری اور خود اپنے آپ کو تھکادیا ہے۔ واللہ! میں نے کسی پہاڑ کو (اس پر) وقوف کیے بغیر نہیں چھوڑا، تو کیا میرا حج ہے؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ شَہِدَ صَلَاتَنَا ہٰذِہِ، وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّی نَدْفَعَ، وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَۃَ قَبْلَ ذٰلِکَ لَیْلًا أَوْ نَہَارًا، فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ، وَقَضَی تَفَثَہُ۔‘‘[2]
’’جس شخص نے ہماری اس نماز کو پالیا اور (پھر) ہماری روانگی تک ہمارے ساتھ (مزدلفہ) رہا اور وہ اس سے پیشتر رات یا دن کو عرفات میں وقوف
[1] یعنی سلمی اور اجا نامی دو پہاڑوں سے۔ (ملاحظہ ہو: تحفۃ الأحوذي ۳/۷۵۱)۔
[2] سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب من لم یدرک عرفۃ، رقم الحدیث ۱۹۴۸، ۵/۲۹۸؛ وجامع الترمذي، کتاب الحج، رقم الحدیث ۸۹۱، ۸۹۲، ۳/۵۴۱۔۵۴۲؛ وسنن النسائي، کتاب مناسک الحج، فرض الوقوف بعرفۃ، ۵/۲۶۴؛ وسنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب من أتی عرفۃ قبل الفجر لیلۃ جمع، رقم الحدیث ۳۰۱۶، ۹/۳۸۔۳۹۔ الفاظِ حدیث جامع الترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے (حسن صحیح) اور امام نووی اور شیخ البانی نے (صحیح) قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۳/۷۵۲؛ وکتاب المجموع ۸/۱۰۰؛ وصحیح سنن الترمذي ۱/۲۶۵)۔ حضرات ائمہ الطیالسی، الحمیدی، احمد، ابویعلی، ابن الجارود، ابن خزیمہ، ابن حبان، الطبرانی، الدارقطنی، الحاکم، البیہقی اور الطحاوی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: إنجاز الحاجۃ ۹/۲۹)۔