کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 221
جارہی ہیں: ا: حضرات ائمہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے حضرت عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ بے شک نجد کے کچھ لوگ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کرنے والے کو حکم دیا، تو اس نے اعلان کیا: ’’اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ، مَنْ جَائَ لَیْلَۃَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ، فَقَدْ أَدْرَکَ الْحَجَّ۔‘‘[1] ’’حج عرفہ (میں (ٹھہرنے کا نام) ہے، جو مزدلفہ (میں قیام) والی شب طلوعِ فجر سے پہلے (عرفات میں) آیا، تو بے شک اس نے حج کو پالیا۔‘‘ سنن ابی داؤد میں ہے: ’’فَتَمَّ حَجُّہُ۔‘‘[2] ’’پس اس کا حج پورا ہوگیا۔‘‘ اور سنن ابن ماجہ میں ہے: ’’فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ۔‘‘ [3] ’’پس یقینا اس کا حج پورا ہوگیا۔‘‘
[1] سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب من لم یدرک عرفۃ، رقم الحدیث ۱۹۴۷، ۵/۲۹۶۔ ۲۹۷؛ وجامع الترمذي، کتاب الحج، باب ما جاء من أدرک الامام یجمع فقد أدرک الحج، رقم الحدیث ۸۹۰، ۳/۵۴۰؛ وسنن النسائي، کتاب مناسک الحج، فرض الوقوف بعرفۃ، ۵/۲۵۶؛ وسنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب من أتی عرفۃ قبل الفجر لیلۃ جمع، رقم الحدیث ۳۰۱۵، ۹/۲۸۔۲۹، والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، باب رمي الحج أیام التشریق، رقم الحدیث ۳۸۹۲، ۹/۲۰۳۔ الفاظِ حدیث جامع الترمذی کے ہیں۔ اسے امام نووی اور شیخ البانی نے (صحیح) کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: کتاب المجموع ۸/۹۸، صحیح سنن الترمذي ۱/۲۶۵)۔ [2] سنن أبي داود ۵/۲۹۷۔ [3] سنن ابن ماجہ ۹/۲۹۔