کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 217
الفطر) کا دن تمہارے روزہ چھوڑنے کے دن ہے اور قربانی (یعنی عید الاضحی) کا دن تمہارے قربانی کرنے کے دن ہے۔‘‘ ب: امام ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلْفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ، وَالْأَضْحَی یَوْمَ یُضَحِّیْ النَّاسُ۔‘‘[1] ’’روزہ چھوڑنے (یعنی عید الفطر) کا دن لوگوں کے روزہ چھوڑنے کے دن ہے اور قربانی (یعنی عید الاضحی) کا دن جس دن لوگ قربانی کریں۔‘‘ دونوں روایتوں کے حوالے سے چار باتیں: ا: امام ترمذی نے پہلی حدیث کے متعلق بعض اہل علم کے حوالے سے نقل کیا ہے: ’’إِنَّمَا مَعْنَی ہٰذَا: اَلصَّوْمُ وَالْفِطْرُ مَعَ الْجَمَاعَۃِ وَعِظَمِ النَّاسِ۔‘‘[2] ’’بے شک اس کا معنی یہ ہے: روزے کا رکھنا اور چھوڑنا جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ہے۔‘‘ علامہ عظیم آبادی اہلِ علم کے اس قول کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’یَعْنِيْ ہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ مَقْبُوْلٌ۔‘‘[3] ’’یعنی وہ اللہ کے ہاں مقبول ہے۔‘‘[4]
[1] جامع الترمذي، أبواب الصوم، باب ما جاء في الفطر والأضحی متی یکون؟، رقم الحدیث ۷۹۹، ۳/۴۳۲۔ شیخ البانی نے اسے (صحیح) قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۱/۲۴۱)۔ [2] جامع الترمذي ۳/۳۱۲۔ [3] عون المعبود ۶/۳۱۶۔ [4] یعنی مسلمانوں کی جماعت اور عام لوگوں کے ساتھ شروع کیے ہوئے روزے اور ان کے ساتھ ہی روزے ختم کرکے، کی ہوئی عید اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر ہے۔