کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 202
امت کے مشقت میں پڑنے کے اندیشے کی بنا پر ان کی خواہش تھی، کہ وہ اس میں داخل نہ ہوتے۔ یہ اسی طرح ہے، جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض نفلی کام خواہش کے باوجود امت پر تخفیف کی خاطر چھوڑ دیتے۔] شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ’’دَخُوْلُ الْکَعْبَۃِ لَیْسَ بِفَرْضٍ وَلَا سُنَّۃٍ مُؤَکَّدَۃِ، بَلْ دُخُوْلُہَا حَسَنٌ، وَالنَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم لَمْ یَدْخُلْہَا فِيْ الْحَجِّ وَلَا فِيْ الْعُمْرَۃِ، لَا عُمْرَۃِ الْجِعْرَانَۃِ، وَلَا عُمْرَۃِ الْقَضِیَّۃِ، وَإِنَّمَا دَخَلَہَا عَامَ فَتْحِ مَکَۃَ۔‘‘[1] ’’کعبہ میں داخل ہونا ہے نہ فرض ہے اور نہ ہی سنت مؤکدہ، البتہ اس میں داخل ہونا مستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج اور کسی بھی عمرے کے دوران اس میں داخل نہ ہوئے، نہ عمرہ جعرانہ[2] میں اور نہ ہی صلح حدیبیہ کے بعد اگلے سال والے عمرے میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر ہی اس میں داخل ہوئے۔‘‘[3] ۱۳: حطیم میں نماز کا کعبۃ اللہ کے اندر کی نماز ہونا: حج و عمرہ کرنے والوں کی ایک شدید خواہش کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر نماز ادا کرنا ہوتی ہے۔ رب ذوالجلال کی قدرت و حکمت، کہ قریش نے حلال مال کی کمی کی وجہ سے کعبۃ اللہ کا کچھ حصہ تعمیر کیے بغیر چھوڑ دیا، جو کہ حطیم یا حِجرْ کے نام سے مشہور ہے اور
[1] أحکام مناسک الحج والعمرۃ ص ۲۰۱۔ [2] ۸ ہجری میں غزوہ حنین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ کے مقام سے احرام باندھ کر کیا۔ (ملاحظہ ہو: زاد المعاد ۲/۹۱)۔ [3] صلح حدیبیہ ۶ ہجری کے اگلے سال ذوالقعدہ ۷ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ (ملاحظہ ہو: اٹلس سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۳۶۷)۔