کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 201
’’إِنِّيْ دَخَلْتُ الْکَعْبَۃَ، وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ فَعَلْتُ۔ إِنِّيْ أَخَافُ أَنْ أَکُوْن أَتَعَبْتُ أُمَّتِيْ مِنْ بَعْدِيْ۔‘‘[1] ’’بے شک میں کعبہ میں داخل ہوا، میں نے چاہا، کہ میں ایسے نہ کرتا۔ مجھے خدشہ ہے، کہ (اس طرح) میں نے بعد میں آنے والی اپنی امت کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔‘‘ امام ابن خزیمہ نے اس پر حسبِ ذیل عنوان اور عبارت تحریر کی ہے: [بَابُ ذِکْرِ الدَّلِیْلِ أَنَّ دَخُوْلَ الْکَعْبَۃِ لَیْسَ بِوَاجِبٍ، إِذِ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَدْ أَعْلَمُ بَعْدَ دُخُوْلِہِ إِیَّاہَا أَنَّہُ وَدَّ إِنْ لَّمْ یَکُنْ دَخَلَہَا مَخَافَۃَ إِتْعَابَ أُمِّتِہ بَعْدَہُ۔ وَہٰذَا کَتَرْکِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم بَعْضَ التَطُوُّعِ، وَالَّذِيْ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یَفْعَلَہُ لِإِرَادَۃِ التَخْفِیْفِ عَلٰی أُمَّتِہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔][2] [دخولِ کعبہ کے واجب نہ ہونے کی دلیل کے ذکر کے متعلق باب، کیونکہ اس میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا، کہ ان کے بعد
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۵۰۵۶، ۴۱/۵۰۴۔۵۰۵؛ وسنن أبي داود، کتاب المناسک، باب في دخول الکعبۃ، رقم الحدیث ۲۰۲۷، ۶/۷؛ وجامع الترمذي، باب ما جاء في دخول الکعبۃ، رقم الحدیث۸۷۴، ۳/۵۱۹۔۵۲۰؛ وسنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب دخول الکعبۃ، رقم الحدیث۳۰۶۴، ۹/۱۲۲۔۱۲۴، وصحیح ابن خزیمۃ، کتاب المناسک، رقم الحدیث۳۰۱۴، ۴/۳۳۳؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب المناسک، ۱/۴۷۹۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے [صحیح]؛ امام حاکم نے [صحیح الاسناد]، حافظ ذہبی نے [صحیح] ڈاکٹر اعظمیٰ اور شیخ جانباز نے [صحیح الاسناد] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [حسن لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي۳/۵۲۰؛ والمستدرک ۱/۴۷۹؛ والتلخیص ۱/۴۷۹؛ وہامش صحیح ابن خزیمۃ ۴/۳۳۳؛ وإنجاز الحاجۃ ۹/۱۲۴؛ وہامش المسند ۴۱/۵۰۵)۔ [2] صحیح ابن خزیمۃ ، کتاب المناسک، ۴/۳۳۳۔