کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 186
ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ اس (یعنی طواف) میں کوئی (مخصوص) ذکر واجب نہیں۔‘‘
ب: شیخ البانی قلم بند کرتے ہیں:
’’وَلَیْسَ لِلطَّوَافِ ذِکْرٌ خَاصٌ، فَلَہُ أَنْ یَقْرَأَ مِنَ الْقُرْآنِ أَوِ الذِّکْرِ مَا شَائَ۔‘‘[1]
’’طواف کے لیے مخصوص ذکر نہیں۔ قرآن میں سے، جو چاہے پڑھے اور ذکر میں سے، جو چاہے کرے۔‘‘
سعی میں دعا کے متعلق شیخ البانی تحریر کرتے ہیں:
’’وَإِنْ دَعَا فِيْ السَّعْيِ بِقَوْلِہٖ: [رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَکْرَمُ۔] فَلَا بَأْسَ لِثُبُوْتِہِ عَنْ جَمْعٍ مِنَ السَّلَفِ۔‘‘[2]
’’اگر سعی میں ان الفاظ [رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَکْرَمُ] [3] کے ساتھ دعا کرے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ سلف میں سے ایک جماعت سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘[4]
ج: شیخ ابن باز لکھتے ہیں:
’’اور نہ اس طواف (یعنی طواف قدوم) اور اس سعی میں، نہ اس کے علاوہ
[1] مناسک الحج والعمرۃ ص ۲۳۔
[2] مناسک الحج والعمرۃ ص ۲۷۔
[3] [ترجمہ: میرے ربٍ معاف فرما دیجیے اور رحم فرمائیے۔ بے شک آپ ہی سب سے زیادہ عزت والے اور سب سے زیادہ بزرگی والے ہیں۔]
[4] ملاحظہ ہو: مصنف ابن ابي شیبۃ، کتاب الحج، باب ما یقول الرجل في المسعی، ۴/۶۸۔۷۰۔ شیخ البانی لکھتے ہیں، کہ یہ ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے [صحیح سند] کے ساتھ منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو: مناسک الحج والعمرۃ ص ۲۷، حاشیہ ۲)۔