کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 185
کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں:
ا: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں:
’’وَلَیْسَ فِیْہِ ذِکْرٌ مَحْدُوْدٌ عَنِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم لَا بِأَمْرِہِ، وَلَا بِقَوْلِہٖ، وَلَا بِتَعْلِیْمِہِ، بَلْ یَدْعُوْ فِیْہِ بِسَائِرِ الْأَدْعِیَۃِ الشَّرْعِیَّۃِ۔ وَمَا یَذْکُرُہُ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ مِنْ دُعَائٍ مُعَیَّنٍ تَحْتَ الْمِیْزَابِ وَنَحْوِ ذٰلِکَ فَلَا أَصْلَ لَہُ۔ وَکَانَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم یَخْتَتِمُ طَوَافَہَ بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ بِقَوْلِہٖ: {رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ}۔ وَلَیْسَ فِيْ ذٰلِکَ ذِکْرٌ وَاجِبٌ بِاِتِّفَاقِ الْأَئِمَۃِ۔‘‘[1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (یعنی طواف) میں کوئی معین ذکر منقول نہیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے، نہ ارشاد سے اور نہ ہی تعلیم سے ،بلکہ وہ (یعنی طواف کرنے والا) سب شرعی دعاؤں کے ساتھ اپنی فریاد پیش کرے۔ بہت سے لوگ میزاب وغیرہ کے نیچے جن مخصوص دعاؤں کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ بے اصل ہیں، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان اپنے طواف کا اختتام کرتے وقت {رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ}[2] پڑھتے۔[3]
[1] أحکام مناسک الحج والعمرۃ وزیارۃ المسجد النبوي ص۱۲۷۔۱۲۸۔
[2] [ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرمائیے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیے۔]
[3] ملاحظہ ہو: سنن أبي داود، کتاب المناسک، باب الدعاء في الطواف، رقم الحدیث ۱۸۸۹، عن عبد اللّٰه بن السائب رضی اللّٰه عنہ ، ۵/۲۴۱۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۱/۳۵۴۔)