کتاب: حج وعمرہ کی آسانیاں - صفحہ 182
’’کَانَتْ عَائِشَۃُ رضی اللّٰه عنہا تَطُوْفُ حَجْرَۃً مِنَ الرِّجَالِ، لَا تُخَالِطُہُمْ۔ فَقَالَتْ امْرَأَۃٌ: ’’اِنْطَلِقِيْ، نَسْتَلِمْ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ!‘‘ قَالَتْ: ’’اِنْطَلِقِيْ عَنْکِ۔‘‘ وَأَبَتْ۔‘‘[1] ’’عائشہ رضی اللہ عنہا مردوں سے ہٹ کر الگ تھلگ طواف کیا کرتی تھیں۔ ایک عورت نے کہا: ’’اے اُمّ المومنین! چلئے ہم (بھی حجر اسود کو) چھوئیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’تو ہی چلی جا۔‘‘ اور (خود جانے سے) انکار کیا۔‘‘ پانچ علماء کے اقوال: ا: امام ابن منذر لکھتے ہیں: ’’وَأَجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الطَّوَافَ یُجْزِیئُ مِنْ وَرَائِ السَّقَایَۃِ۔‘‘[2] [ان (یعنی علمائے امت) کا اس بات پر اجماع ہے، کہ زمزم پلانے کی جگہ کے پیچھے سے کیا ہوا طواف کفایت کرتا ہے۔] ب: امام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں: ’’وَیَجُوْزُ أَنْ یَطُوْفَ مِنْ وَرَائِ قُبَّۃِ زَمْزَمَ وَمَا وَرَائَہَا مِنَ السَّقَائِفِ الْمُتَّصِلَۃِ بِحِیْطَانِ الْمَسْجِدِ۔ وَأَمَا إِذَا أَمْکَنَ
[1] صحیح البخاري، کتاب الحج، باب طواف النساء مع الرجال، جزء من رقم الروایۃ ۱۶۱۸، ۳/۴۷۹۔۴۸۰۔ [2] ’’الإجماع‘‘ ص ۲۰، منقول از ہامش أحکام مناسک الحج والعمرۃ للشیخ علی آل سنان، ص ۱۲۵۔